سال 2020 ایک ایسے ڈراؤنے خواب کی طرح لگ رہا ہے جسے آپ جیتے جاگتے پورے ہوش وحواس کے ساتھ گزار رہے ہوں، ایک ایسا خواب جو چلتا ہی جا رہا ہے۔۔۔ چلتا ہی جا رہا ہے اور دور دور تک امکان نہیں کہ زندگی اپنی پرانی روش پر لوٹ پائے گی۔
دنیا کے ذہین ترین دماغ، اب پوسٹ کورونا دنیا کے نئے طور و اطوار پر غور کر رہے ہیں۔ نیا ورلڈ آرڈر کیا ہوگا، دنیا کی معیشت اور کاروبار کی حرکیات کیا ہوں گی۔ سیاست کی ہیئت کیسے بدلے گی، یہ سب سوالات ماہرین کے سامنے سر اٹھائے کھڑے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
وزیراعظم یا تو سادہ ہیں یا پھر کرپٹ: بلاول بھٹوNode ID: 478451
-
امریکی امداد، ’پاکستان 10 ترجیحی ممالک میں‘Node ID: 479286
-
کیا کورونا کے ساتھ لمبے عرصے تک رہنا ہوگا؟Node ID: 479386
پاکستان میں اس وبا نے سیاسی بساط کو کچھ یوں بدلا ہے کہ خدشوں اور اندیشوں میں گھری، خان صاحب کی حکومت کو ایک نئی لائف لائن مل گئی ہے۔ کورونا سے پہلے کے تمام تر تخمینے، اندازے اور تجزئیے اب قصہ پارینہ ہوئے۔ اپوزیشن کا کیا گیم پلان ہے اور تحریک انصاف کے پلے کیا ہے، کچھ باتیں واضح ہوئی ہیں اور کچھ اب بھی مبہم ہیں۔
شروع کرتے ہیں اپوزیشن سے، خان صاحب کی سب سے بڑی خوش بختی یہ ہے کہ ملک میں حقیقی اپوزیشن ہے ہی نہیں۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت، خود اقتدار کا حصہ ہے۔ پی پی پی 2018 کےانتخابات کے بارے میں کراچی کی نشستوں پر تحفظات کا جتنا بھی اظہار کرے اسے تو خود ان الیکشن کے نتائج سے بہرہ مند کیا گیا ہے۔ سندھ میں پہلے سے زیادہ نشستیں، وہاں اقتدار پر بھر پور گرفت، ان سب ثمرات سے پی پی پی محظوظ ہو رہی ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/May/36486/2020/000_1rr4f1.jpg)
یہ جماعت بیانات کی حد تک، کبھی فرنٹ فٹ پر اور کبھی بیک فٹ پر اپنی حکمت عملی تبدیل کرتی رہے گی لیکن مجموعی طور پر خان صاحب کی حکومت کے لیے کوئی خاص خطرہ نہیں کھڑا کرے گی۔ اب تو نیشنل کوارڈینیشن کیمٹی کے ذریعے وفاق کےساتھ ایک ٹوٹھا پھوٹا سا ہی سہی لیکن بہرحال ایک ورکنگ فارمولا بھی چل پڑا ہے۔ الغرض پیپلز پارٹی کی سیاست کا موٹا موٹا حساب یہ ہے کہ فی الحال پارلیمان میں اور پریس کانفرنسوں میں زوردار تقاریر ہوں گی لیکن این سی او سی میں کوارڈینیشن سے کیے گئے فیصلوں کے نتائج میں بھرپور شراکت داری بھی ہوگی۔
اب بات ہو جائے اس جماعت کی جو تحریک انصاف کو سیاسی طور پر سنجیدگی سے چیلنج کر سکتی ہے۔
ن لیگ کیا سوچ رہی ہے، اس کے بارے میں سب ہی مخمصے میں ہیں۔ پارٹی کے خیرخواہ ایک دوسرے سے سوال کر تے پھر رہے ہیں کہ آخر شہباز شریف برطانیہ سے لوٹتے ہوئے اپنی زنبیل میں سے کیا نکالنے والے ہیں۔
حکمت عملی پارٹی کی باقی لیڈرشپ میں سے کسی پر بھی واضح نہیں، وہ اپنی اپنی جگہ شہباز شریف کے انٹرویوز سے اندازے لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ووٹر بھی کبھی رائے ونڈ کی طرف دیکھتا ہے اور کبھی ماڈل ٹاؤن کی طرف۔
![](/sites/default/files/pictures/May/36486/2020/000_1oy82h.jpg)