Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اعدادوشمار کے مطابق انڈیا میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ گئی ہے (فوٹو:اے ایف پی)
دنیا کی سب سے خطرناک بیماری پھیلی ہوئی ہو تو تاریخ کی سب سے لمبی پریس کانفرنس تو بنتی ہے۔ پانچ دن لگے لیکن آخرکار انڈیا کی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن کی پریس سے بات چیت ختم ہو ہی گئی۔
انہوں نے ویک اینڈ کی بھی پرواہ کیے بغیر کسی سلسلہ وار ڈرامے کی طرح پریس کو اس مالی پیکج کی تفصیلات بتائیں جس کا اعلان چند روز قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔ روزانہ کچھ راز کھولے اور کچھ پوشیدہ رکھے۔
نرملا سیتارمن کے سٹیمنا کو جج مت کیجیے گا، وہ سابق وزیر دفاع بھی ہیں اور اسی سال انہوں نے انڈیا کی پارلیمانی تاریخ کی سب سے لمبی بجٹ سپیچ دی تھی جس کے بعد مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو لگا تھا کہ اب باقی چار بجٹ پیش کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ بس ایک ہی کافی ہے۔
اب لگتا ہےکہ تقریر کو پانچ حصوں میں تقسیم کرنا بہتر رہتا۔
لیکن حکومتیں اس طرح نہیں چلتیں۔ جیسے جیسے نئے چیلنج سامنے آتے ہیں، فعال اور ذمہ دار حکومتیں ان سے نمٹنے کی تدابیر کرتی ہیں۔
باقی دنیا کی طرح انڈیا کو بھی غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے۔ دو مہینے سے ملک تقریباً پوری طرح بند پڑا تھا اور معیشت اگر کورونا وائرس کی مریض ہوتی تو اب تک اسے آئی سی یو میں داخل کرادیا گیا ہوتا۔ اس لیے معیشت کو سنبھالنے کے لیے ایک بڑے مالی پیکج کی ضرورت پڑی ہے۔
لیکن اعتراض کرنے والوں کی زبان کون پکڑ پایا ہے۔ بس شکایت کی عادت ہو تو لوگ نکتہ چینی کے لیے پوائنٹ ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ شادی کے کھانوں میں آپ نے اکثر دیکھا ہی ہوگا، اور اعتراف کرنے میں دقت ضرور ہوگی لیکن شاید کیا بھی ہو۔۔۔گوشت کم گلا ہوا تھا یا روٹی ٹھنڈی تھیں یا اتنی دعوتیں کر رکھی تھیں کہ میزبان کو یہ خبر بھی نہ ہوئی ہوگی کہ کون آیا تھا اور کون نہیں۔ اور یہ سب بمعہ اہل و عیال کھانا کھانے اور لفافے میں پانچ سو یا ہزار روپیے کا ایک اکیلا نوٹ رکھنے کے بعد۔

انڈیا میں کورونا وائرس کے کیسز میں مزید اضافہ ہوا ہے (فوٹو: اے ایف پی

لیکن پانچ دن لگ جانا کوئی حیرت کی بات بھی نہیں۔کچھ پیکج بھی بڑا تھا کچھ روایت بھی ہے۔ جب خود وزیر اعظم ٹی وی پر آتے ہیں تو آدھا گھنٹا چالیس منٹ کہاں نکل گئے خبر بھی نہیں ہوتی۔ لوگ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ اصلی تقریر گھر بھول آئے کیا۔
شادیوں میں شکایت کرنے والے یا ان سے نظریاتی مماثلت رکھنے والے ایک شخص نے ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ جب نریندر مودی پانچویں جماعت میں تھے تو امتحان میں پوچھا گیا کہ فرانس کی راجدھانی کا نام بتائیے۔
جواب میں انہوں نے لکھا:ایک ملک کے طور پر آج ہم ایک بہت اہم موڑ پر کھڑے ہیں، بھارت وشو گورو (دنیا کا استاد) بننے کے بہت قریب ہے، پوری دنیا بھارت کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے، ان میں فرانس بھی شامل ہے۔ فرانس کی راجدھانی پیرس ہے۔
جواب میں ٹیچر نے ریمارک لکھا کہ نریندر، صرف ایک مارک کا سوال تھا اتنا بیک گراؤنڈ دینے کی کیا ضرورت تھی؟
اب آپ کو اعتراض کرنا ہو تو کر لیجیے لیکن جواب تو درست تھا۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہزاروں مزدور بے روزگار ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)

بس کچھ اسی مزاج کے لوگ حزب اختلاف میں بھی شامل ہیں۔ کسی نے کہا کہ پیکج کی تفصیلات روز بتانے کا بظاہر مقصد یہ تھا کہ میڈیا کی توجہ ان لاکھوں غریب لوگوں سے ہٹی رہے جو چلچلاتی دھوپ میں بھوکے پیاسے سینکڑوں کلومیٹر پیدل سفر کرکے اپنے گھروں کو لوٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کی کچھ تصاویر آپ نے بھی دیکھی ہوں گی۔ ایک شاید یاد بھی رہ گئی ہو جس میں ایک عورت سڑک پر اپنا سوٹ کیس کھینچ رہی ہے، اور سوٹ کیس کے اوپر اس کا بچہ سو رہا ہے۔ اس تصویر کے بارے میں آگرہ کے ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بچپن میں ہم بھی ایسے ہی کھیلتے تھے۔
ڈی ایم بہت معصوم ہوتے ہیں۔ ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں کھیلنے اور ایک ہزار کلومیٹر پیدل سفر کرنے کا معمولی فرق انہیں کون سمجھائے؟
تو محترم ٹیچر کی طرح بہت سے لوگ پریشان ہیں۔ اعتراض کرنے والوں کی شکایت یہ ہے کہ وزیراعظم نے ٹی وی پر آدھے گھنٹے سے زیادہ تقریر کی جسے ہم نے غور سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ 20لاکھ کروڑ روپیے کا پیکج تیار کیا گیا ہے۔ پھر نرملا سیتارمن نے پورے ہفتے تفصیلات بتائیں اور ہم پھر غور سے سنتے رہے۔ اور نتیجہ کچھ ایک نمبر کے سوال کی طرح ہی نکلا بس انہوں نے آخر میں یہ بھی نہیں بتایا کہ فرانس کی راجدھانی کیا ہے۔

پبلک ٹرانسپورٹ میں مسافروں کو ہینڈ سینیٹائزر فراہم کیا جا رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

بھائی یہ ایک بحران ہے، کروڑوں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں، انہیں فوری مدد چاہیے اور آپ ساختیاتی اصلاحات کا اعلان کر رہے ہیں۔
یہ اصلاحات بہت ضروری ہیں، اور ان کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے لیکن ان کا فائدہ سامنے آنے میں بہت وقت لگے گا اور غریبوں کو اگلے وقت کی روٹی کی فکر ہے۔
مشہور برطانوی ماہر اقتصادیات جان مے نارڈ کینز نے کہا تھا کہ ’ان دی لانگ رن وی آر آل ڈیڈ۔‘  یا بس یوں سمجھ لیجیے کہ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔

شیئر:

متعلقہ خبریں