سڑکیں سنسان کر دینے والے ڈرامے اب کیوں نہیں بن رہے؟
سڑکیں سنسان کر دینے والے ڈرامے اب کیوں نہیں بن رہے؟
اتوار 7 جون 2020 15:46
آمنہ کنول
ڈراموں کی کہانیاں غیر ازدواجی تعلقات، طلاق اور دوسری شادی تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں (فوٹو:سوشل میڈیا)
پاکستان ٹیلی ویژن اپنے سنہری دور کی بہت سی یادیں سمیٹے ہوئے ہے اس پر نشر ہونے والے ڈراموں کا لوگوں پر سحر طاری رہتا تھا یہی وجہ ہے کہ بہت سے ڈراموں کے کردار آج بھی لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہیں۔
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا چینلز کی تعداد بڑھتی گئی اور ڈراموں کے لیے چوبیس گھنٹوں کی نشریات مختص کی جانے لگی۔
چینلز کی تعداد زیادہ ہونے کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ ڈرامے زیادہ بننے لگے، گھر بیٹھے آرٹسٹوں کو بھی کام ملنے لگا لیکن ڈراموں کی بہتات نے معیار کو متاثر کیا۔
شائقین سوال کرتے ہیں کہ آج کیوں سڑکیں سنسان کر دینے والا ڈرامہ نہیں بن رہا جس کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں ہے۔
کہانیاں غیر ازدواجی تعلقات، طلاق، دوسری شادی اور عورت کی عورت سے دشمنی تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
کہیں خاتون کو مظلوم دکھایا جا رہا ہے تو کہیں اتنی آزاد خیال کہ اس کو اپنی روایات کی پاسداری ہی نہیں۔
لیکن اس کے باوجود روایتی موضوعات سے ہٹ کر اڈاری، رانجھا رانجھا کردی، میرے پاس تم ہو اور چیخ جیسے ڈرامے بھی بن رہے ہیں جنہیں لوگوں میں پذیرائی مل رہی ہے۔
جب پروڈیوسرز سے سوال کیا جاتا ہے کہ اخلاقیات کے دائرے سے باہر کہانیاں کیا پرڈیوسر یا چینل کی مجبوری بن چکی ہیں تو یہی جواب سننے کو ملتا ہے کہ 'ہم وہی کچھ دکھا رہے ہیں جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں اور آج کی کہانیاں معاشرے کی عکاسی کر رہی ہیں۔'
اب یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو کچھ دکھایا جا رہا ہے وہ کس معاشرے کی عکاسی ہے؟ جب 'اخلاق سے عاری' کہانیوں کی بات کی جاتی ہے تو وہیں ان میں کام کرنے والے آرٹسٹ بھی تنقید کی زد میں آجاتے ہیں تو کیا آرٹسٹ کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا درست ہے؟
اس صنعت کے ماہرین کے مطابق آرٹسٹ موجودہ صورتِ حال کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اداکاری آرٹسٹوں کے رزق کا ذریعہ ہے اور ان کے ساتھ بہت سی زندگیاں جڑی ہوتی ہیں اس لیے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی روزی روٹی داؤ پر لگا دیں۔
ماضی کے ڈرامے کیوں آج بھی لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہیں ان ڈراموں کی خاص بات آخر کیا تھی تو جواب یہ سامنے آتا ہے کہ اس وقت لکھاری، اداکار، ڈائریکٹر سمیت ہر ایک کو کام کرنے کے لیے بھرپور وقت دیا جاتا تھا، لکھاری کے ہاتھ نہیں باندھے جاتے تھے یہ کہہ کر کہ ہمیں ایسا موضوع یا کہانی لکھ کر دیں، تب ریٹنگ کا جنون پرڈیوسزر کے سر پر سوار نہیں ہوتا تھا۔
ہم نے اس سلسلے میں معروف رائٹر اصغر ندیم سید سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ 'یہ آج کی بات نہیں ہے بلکہ 15 سال سے یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے چینلز نے ڈرامہ دیکھنے والوں کو ذہنی طور پر کمزور کرکے اپنا ہمنوا بنایا پھر اپنی مرضی کا مصالحہ بیچا۔ 'جب دیکھنے والوں کو ذہنی، جذباتی اور معاشرتی طور پر کمزور کر دیا جائے گا تو پھر وہ ایسی ہی چیزوں کے عادی ہو جائیں گے جو کچھ دکھایا جا رہا ہے۔'
اصغر ندیم سید اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ جو کچھ معاشرے میں چل رہا ہے وہی دکھایا جا رہا ہے۔ 'اگر یہ کہا جاتا ہے کہ جو کچھ سوسائٹی میں چل رہا ہے وہی دکھا رہے ہیں تو پھر کیا 60 فیصد لڑکیاں جو یونیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہیں وہ یہی کچھ کر رہی ہیں؟ یا گھر میں بیٹھی ہر دوسری عورت اسی قسم کے کام کر رہی ہیں جو ڈراموں میں دکھایا جا رہا ہے؟
'میں سمجھتا ہوں کہ رائٹر کبھی ڈکٹیکٹ نہیں ہو سکتا اور جو ڈکٹیٹ ہوتے ہیں وہ رائٹر نہیں ہوتے۔ جس کے کریڈٹ پر کوئی نہ کوئی لکھی ہوئی چیز ہو، ناول یا کتاب ہو وہ رائٹر ہوتا ہے۔
نوجوان نسل کی نمائندہ رائٹرعمیرہ احمد کہتی ہیں مجھ سے زیادہ بہتر دیکھنے والے بتا سکتے ہیں کہ ڈرامہ کیسا ہے۔ اگر کوئی بھی ڈرامہ ریٹنگ لے رہا ہے عوام اسے پسند کر رہی ہے تو مان لیں کہ پندرہ بیس سالوں میں لوگوں کی ایستھیٹک سینس (حس لطافت) کی تباہی کا جو بیج بویا وہ اب پھل لا رہا ہے۔ ایک صحت مند تفریح کیا ہوتی ہے لوگ پہچان ہی نہیں پا رہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'اس کا ذمہ دار صرف اور صرف چینلز کے چیف ایگزیکٹیو آفیسرز ہیں۔ بنیادی طور پر چار بڑے چینلز ہیں وہاں جو چلتا ہے وہ طے کر دیتا ہے کہ عوام کیا دیکھے گی۔ جو اصل ڈرامہ دیکھنے والے تھے وہ پاکستانی ڈرامہ دیکھنا چھوڑ چکے ہیں اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی طرف جا چکے ہیں وہ آپ کا 8 بجے کا ڈرامہ نہیں دیکھتے۔
ریٹنگ کے حوالے سے عمیرہ احمد نے کہا کہ 'جہاں تک ریٹنگ کی بات ہے تو اس کو مینی پولیٹ کیا جاتا ہے جو چینل تگڑی پوزیشن میں ہوتا ہے وہ ریٹنگ کو مینی پولیٹ کروا لیتا ہے۔ ریٹنگ کے پیرامیٹرز پوری دنیا میں ہوتے ہیں جو مواد کو جانچتے ہیں لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ چینلز کے چیف ایگیزیکٹیو آفیسرز خود ہی سب کچھ طے کرتے ہیں۔
عمیرہ احمد نے مزید بتایا کہ 'جہاں تک رائٹرز کو ڈکٹیٹ کرنے کی بات ہے تو میں اپنی بات کروں گی کہ مجھے کوئی اس لیے بھی ڈکٹیٹ نہیں کرتا کیونکہ میں کتابوں سے ڈراموں میں آئی ہوں۔ سب میرے لکھنے کے انداز سے بخوبی واقف ہیں اس لیے کبھی کسی ایسے شخص نے اپروچ ہی نہیں کیا جو مجھ سے ڈیمانڈ کر کے لکھوائے۔
ماضی کے ڈراموں کی مقبولیت اور آج کے ڈراموں کے معیار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'آج کے ڈرامے کا ماضی کے ڈرامے کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔
اداکار اعجاز اسلم سمجھتے ہیں کہ تنقید تو ہر وقت رہتی ہے، چاہے جیسے مرضی موضوع پر ڈرامہ بنا لیں۔ 'سیدھی سی بات ہے کہ ہر کہانی ہر کسی کو پسند نہیں آتی لیکن جو چیز اکثریت کو پسند آرہی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ ویسی چیزیں دیکھنا چاہتے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ طلاق، غیر اذواجی تعلقات پر مبنی ڈرامے دیکھ دیکھ کر لوگ اکتا چکے ہیں لہذا جیسے ہی کوئی مختلف چیز آتی ہے تو لوگ شوق سے دیکھتے ہیں۔ نیٹ فلیکس جیسے دیگر میڈیمز پر مختلف قسم کی چیزیں دیکھ کر لوگوں میں خاصا شعور آچکا ہے وہ مختلف موضوعات پر ڈرامے اور فلمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔
اعجاز اسلم نے مزید کہا کہ 'اب ہمارے ہاں چینلز کوشش ضرور کرتے ہیں کہ وہ اچھی چیز بنائیں لیکن وہ روٹین سے ہٹ کر کوئی چیز بنانے کا رسک نہیں لیتے کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ ہم نے ایسا کیا تو کہیں فلاپ نہ ہو جائے۔'
ان کے بقول 'کونسا ڈرامہ یا فلم کتنی ریٹنگ لے رہی ہے میں اس پر زیادہ یقین نہیں کرتا کیونکہ ہمارے ہاں ریٹنگ کا سسٹم یقین کرنے کے قابل نہیں ہے اس سے بہتر تو ہم یوٹیوب اور انٹرنیٹ سے ڈیٹا لے سکتے ہیں۔'