Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمیں تو پیدل ہی لے چلو

وکاس دوبے کی ہلاکت کے بعد پولیس کی کارکردگی سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا میں یوں تو معصوم لوگوں کی کمی نہیں لیکن اس فہرست میں سب سے اوپر پولیس والے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ شاید اعتراض کریں، ہو سکتا ہے کہ آپ بھی اتفاق نہ کریں لیکن اگر آپ سوا ارب کے ملک میں رہتے ہیں تو جمہوریت اور اظہار خیال کی آزادی چاہے جس حال میں بھی ہوں، اختلاف رائے کچھ حد تک برداشت اور زیادہ تر نظرانداز کرنے کی عادت جتنی جلدی ڈال لیں اتنا ہی آپ کی ذہنی صحت کے لیے بہتر رہے گا۔
اب پولیس والوں کی معصومیت کے بارے میں آپ کو کیا بتائیں۔ دل اتنے نرم کہ جیسے موم، ذرا سی آنچ لگی اور پھر آپ جیسے چاہیں ڈھال لیں۔ اترپردیش پولیس کی ہی مثال لے لیجیے۔
کچھ دن پہلے تک کانپور کے ایک نواحی گاؤں میں ایک خطرناک مجرم رہتا تھا۔ نام تھا وکاس دوبے۔ کہتے ہیں کہ اس کے خلاف 60 مقدمات قائم تھے، قتل کے بھی قتل کی کوشش کے بھی۔ مجرم چاہے کتنا بھی خطرناک ہو آخر انسان ہی ہوتا ہے اور انسان سے چوک بھی ہوجاتی ہے اس لیے قتل کی تمام کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں۔
اس کے علاوہ اگر منشیات کا دھندا نہیں کیا، دو چار لوگوں کو اغوا نہیں کیا اور ان سے ’پھروتی‘ وصول نہیں کی تو جرائم کی دنیا میں قدم رکھنے کا فائدہ ہی کیا ہے۔ اور تھوڑا نام ہو جانے کے بعد بھی چھوٹی موٹی سیاست نہیں کی تو یہ اپنا ٹیلنٹ برباد کرنے والی بات ہوئی۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ وکاس دوبے نام کا یہ شخص ’مکمل پیکج‘ تھا۔
اب نہیں ہے! لیکن یہ وکاس دوبے کے ظلم کی نہیں پولیس کی معصومیت اور رحم دلی کی کہانی ہے۔
چند روز قبل پولیس کی ایک ٹیم نے دوبے کو پکڑنے کے لیے اس کے گاؤں پر ریڈ کی۔ مقامی تھانے میں کچھ پولیس والوں کو لگا کہ اتنے لوگ اچانک دوبے کے گھر پہنچ جائیں گے تو گھر والوں کو پریشانی ہوگی، اس لیے انہوں نے دوبے کو بھی اطلاع کر دی۔ یوں پیشگی اطلاع کے بغیر پندرہ بیس لوگ آپ کے گھر پہنچ جائیں تو خاطر کا انتظام کرنے میں پریشانی تو ہوتی ہی ہے۔
پولیس والوں نے شاید سوچا ہوگا کہ دوبے دو چار دن کے لیے ادھر ادھر ہو جائے گا اور بات آئی گئی ہو جائے گی۔ لیکن دوبے گاؤں میں ہی ٹکا رہا اور پولیس کی ٹیم پر گھات لگا کر حملہ کر دیا جس میں آٹھ پولیس والے ہلاک ہوئے۔

وکاس دوبے کو پولیس انکاؤنٹر میں ہلاک کر دیا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

حملے کے بعد دوبے اور اس کے ساتھی فرار ہو گئے۔ کئی پولیس والوں کو معطل کر دیا گیا اور کئی کو اس الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے کہ انہوں نے دوبے کو ریڈ کے بارے میں مطلع کیا تھا۔ بھلائی کا زمانہ ختم ہوچکا ہے۔ حملے کے اگلے ہی دن ضلعی انتظامیہ نے گاؤں میں دوبے کا محل نما گھر مسمار کر دیا اور جب گھر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا تو فورینسک ماہرین کی ٹیم ثبوت ڈھونڈنے کے لیے وہاں پہنچ گئی۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ ثبوت تلاش کرنے تھے تو گھر توڑنے کی کیا جلدی تھی؟ دوبے کے بھاگنے کے بعد گھر سے کیا خطرہ تھا؟
اور توڑ بھی دیا تھا تو بس بات وہیں ختم کردیتے۔ وہاں سے ایسا کون سا ثبوت مل جاتا کہ عدالت دوبے کو فوراً جیل واپس بھیج دیتی۔ کہتے ہیں کہ دوبے نے سنہ 2001 میں پولیس تھانے کے اندر ایک ریاستی وزیر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ لیکن تمام گواہ پلٹ گئے اور اسے با عزت بری کر دیا گیا۔ پولیس والوں نے شاید سوچا ہوگا کہ بھائی جو ہو گیا سو ہو گیا، اب بات بڑھانے سے کیا فائدہ، آگے سے دھیان رکھنا، یوں سر عام لوگوں کو مارنا اچھی بات نہیں ہے۔
پولیس پر حملے کے بعد دوبے کئی ریاستوں سے گزرتا ہوا مدھیہ پردیش کے شہر اجین پہنچ گیا جہاں پراسرار حالات میں اسے ایک مندر سے گرفتار کیا گیا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ’سٹیج مینیجڈ سرینڈر‘ تھا تاکہ پولیس اسے ٹھکانے نہ لگا دے کیونکہ اس سے پہلے صرف تین چار دنوں میں اس کے پانچ ساتھی پولیس کے ساتھ ’مقابلوں‘ میں ہلاک ہو چکے تھے۔
ان میں سے ایک کو پولیس گرفتار کر کے لے جا رہی تھی کہ گاڑی میں پنکچر ہو گیا۔ جب پولیس والے ٹائر بدل رہے تھے تو پولیس کے مطابق اس شخص نے ایک پولیس اہلکار کی ریوالور چھین کر پولیس پر فائرنگ کی اور پولیس کی جوابی کارروائی میں مارا گیا۔

 وکاس دوبے کی ہلاکت پر پولیس افسروں کو مٹھائی کھلائی گئی (فوٹو: ریڈف)

یہ مجرم بھی پولیس کو بہت بے وقوف سمجھتے ہیں۔ پولیس نے اس شخص پر بھروسا کیا ہوگا، کہا ہوگا کہ یار دس منٹ بیٹھو ہم جلدی سے ٹائر بدلتے ہیں، تمہیں گرمی لگ رہی ہوگی، اور اس شخص نے پولیس کی رحم دلی کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہوگی۔ کوئی اور ہوتا تو دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈال کر ایک کونے میں بٹھا کر رکھتا، تھوڑا سخت مزاج افسر ہوتا تو ہاتھ کمر کے پیچھے باندھ دیتا۔ لیکن اگر وہ ایسا کرتے تو معصوم کیوں کہلاتے۔
لیکن دوبے خود کو بہت ہوشیار سمجھ رہا تھا۔ وہ اجین کے کسی مندر میں کیوں گیا تھا؟ شاید اس لیے کہ بھیڑ بھاڑ والی جگہ سے پکڑا جائے گا تو پولیس اسے ’انکاؤنٹر‘ میں مار نہیں پائے گی۔ بہرحال، گرفتاری کے بعد پولیس نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور کانپور کے لیے نکل پڑی۔ کانپور پہنچنے سے ذرا پہلے وہی ہوا جس کا خطرہ سوشل میڈیا پر کھل کر ظاہر کیا جا رہا تھا۔
پورے قافلے میں پولیس کی وہی گاڑی پلٹ گئی جس میں وکاس دوبے کو بٹھایا گیا تھا۔ لگتا ہے کہ اس مرتبہ بھی پولیس ہتھکڑی لگانا بھول گئی تھی، دوبے پلٹی ہوئی گاڑی میں سے نکلا، ایک پولیس والے کی ریوالور چھینی اور پولیس والوں پر فائرنگ کرتے ہوئے بھاگنے کی کوشش کی۔ لیکن بھاگتا کہاں تک پولیس نے اسے گھیر لیا، سرینڈر کرنے کے لیے کہا اور جب وہ نہیں مانا تو اسے گولی مار کر ہلاک کردیا۔
اب اس کہانی سے آپ جو بھی مطلب اخذ کرنا چاہیں کریے لیکن پولیس کی معصومیت پر انگلی نہیں اٹھا سکتے۔ بہت سے لوگ پہلے سے کہہ رہے تھے کہ دوبے زندہ رہا تو اس کی پشت پناہی کرنے والے پولیس افسران اور سیاستدانوں کے نام افشا ہوں گے، اور یہ کون برداشت کرتا ہے۔ اب اس انکاؤنٹر کی تفتیش کرنے کے لیے ایک انکوائری بٹھا دی گئی ہے۔

 وکاس دوبے کو ریاست مدھیہ پردیش سے گرفتار کیا گیا (فوٹو: انڈین ایکسپریس)

انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہیے ایسا لگنا بھی چاہیے کہ انصاف کیا جا رہا ہے۔ اتر پردیش کی موجودہ حکومت کے دور اقتدار میں 119 لوگ پولیس کے ساتھ ’مقابلوں‘ میں ہلاک ہوئے ہیں۔ ان میں سے 74 کیسز کی تفیش مکمل ہو چکی ہے۔ (سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ پولیس کے ساتھ مقابلے میں اگر کوئی شخص مارا جاتا ہے تو اس کی لازمی طور پر عدالتی انکوائری کی جانی چاہیے)۔ ان سبھی میں پولیس کو کلین چٹ دی گئی ہے۔ پولیس کی معصومیت اور بے گناہی کا اس سے صاف ریکارڈ اور کیا ہو سکتا ہے۔
لیکن اس کے باوجود لوگ پولیس کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم انہیں معصوم کہیں تو لوگ مسکراتے ہیں۔ اس لیے پولیس والوں کے لیے پیغام ہے کہ انہیں امیج میک اوور کی ضرورت ہے۔ اسے بہتر گاڑیوں اور ماہر ڈرائیوروں کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر جب وہ ملزمان کو کہیں لے جا رہی ہو۔ تاکہ نہ ٹائر پنکچر ہو نہ گاڑی اچانک پلٹ جائے، نہ اس پر کسی کو، چاہے وہ خطرناک مجرم ہی کیوں نہ ہو، ماورائے عدالت قتل کرنے کا الزام لگے۔
اور اگر گاڑیاں یا ڈرائیور نہیں بدل سکتے، یا بدلنا نہیں چاہتے، تو پھرسکرپٹ رائٹر بدل لیں۔ ان کہانیوں کا انجام بھلے ہی نہ بدلے لیکن انہیں ایک نئے انداز اور نئے موڑ کی ضرورت ہے۔ موجودہ سکرپٹ بہت گھس پٹ گئی۔ اور ہاں، ہتھکڑیوں کا بہتر استعمال کرنا سیکھیں۔ اگر انہیں ہاتھوں میں پہنا دیا جائے تو پولیس والوں کے ہتھیار محفوظ ہو جائیں گے۔

’اتر پردیش کی موجودہ حکومت کے دور میں 119 لوگ پولیس مقابلوں میں ہلاک ہوئے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

سب سے اہم یہ کہ عدالتوں کا بوجھ کم کرنے کی زیادہ فکر نہ کریں۔ ججوں کو بھی تنخواہ ملتی ہے، آپ صرف ملزمان کو گرفتار کریں اور سزا دینے کا کام عدالتوں پر چھوڑ دیں۔ اور پھر عدالت ملزم کو چھوڑ دے تو اس کی قسمت۔ وکاس دوبے کو ساٹھ مقدمات کا سامنا تھا لیکن وہ پھر بھی اپنے گھر پر ہی تھا، جیل میں نہیں۔ اس لیے عدالتوں کی رحم دلی کو بھی کم مت سمجھیے۔
تو یہ پیدل لے جانے کی کہانی کیا ہے؟ سوشل میڈیا پر ایک کارٹون کافی گردش کر رہا ہے۔ بابا آسارام کا نام تو شاید آپ نے سنا ہی ہوگا۔ وہ ایک نام نہاد سادھو ہیں، بے پناہ دولت کے مالک، درجنوں سرکردہ سیاستدان اور صنعتکار ان کے مرید ہیں، لیکن وہ آج کل ریپ کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ پولیس آسارام کو مقدمے میں پیشی کے لیے عدالت لے جانا چاہتی ہے اور وہ بہت معصومیت سے کہہ رہے ہیں کہ بھائی ہمیں تو پیدل ہی لے چلو۔

شیئر: