Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا وائرس سے آزادی

’انڈین ادارے نے کہا کہ کورونا کا ٹیکہ 15 اگست تک تیار ہونا چاہیے‘ (فوٹو: روئٹرز)
جب انسان ٹھان لے کہ اسے کچھ کر گزرنا ہے تو پھر وہ کس کی پروا کرتا ہے؟
جو لوگ پروا کرتے ہیں وہ مضمرات کی باریکیوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور جب آپ یہ سوچنے میں لگ جائیں کہ اگر بات نہیں بنی تو کیا ہوگا تو پھر بات بننے کا امکان تقریباً ختم ہی ہو جاتا ہے۔
تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو کامیابی اُنہی لوگوں کے قدم چومتی ہے جو انجام کی پروا نہیں کرتے۔ تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے سکندر اعظم نے دنیا کو دکھایا تھا کہ عزم اور حوصلے سے کیا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اگر سکندر نے یہ سوچنا شروع کر دیا ہوتا کہ اتنی دور نکل تو پڑے ہیں واپسی میں فلائٹ بھی ملے گی یا نہیں تو فوجی مہم محلے سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔

 

ایسی مثالوں کی کمی نہیں ہے۔ اس لیے جب انڈیا کے طبی نگراں ادارے انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کے ڈائریکٹر جنرل نے یہ فرمان جاری کیا کہ کورونا وائرس کا ٹیکہ ہندوستان کے یوم آزادی یعنی 15 اگست تک تیار ہوجانا چاہیے تو مجھے زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔
عام حالات ہوں تو ٹیکہ تیار کرنے میں برسوں لگتے ہیں، جلدی میں ہوں تب بھی سال ڈیڑھ سال تو کہیں نہیں گیا۔
لیکن سب کے کام کرنے کی رفتار مختلف ہوتی ہے۔ چھ ہفتوں میں آپ چاند سے لوٹ کر آسکتے ہیں تو ٹیکہ تیار کرنا کون سے بڑی بات ہے۔
ماہرین تو ہمیشہ کی طرح بس اعتراض کر رہے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ اصل وقت ٹرائل میں لگتا ہے کیونکہ جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ ٹیکہ محفوظ بھی ہے اور وائرس کو روکتا بھی ہے تب تک اسے عوام میں استعمال کے لیے منظوری نہیں دی جا سکتی۔
سب سے بڑا چیلنج یہ دیکھنا ہے کہ اگر ٹیکہ لگانے کے بعد جسم میں وائرس کو روکنے والی اینٹی باڈیز بن بھی جاتی ہیں تو ان کا اثر کتنے دن باقی رہتا ہے۔ آپ سوا ارب لوگوں کو ہر چھ  ہفتے بعد ٹیکہ نہیں لگا سکتے، اور اگر آپ نے کوشش کی تو یہ بالکل ایسا ہوگا کہ ٹیکہ لگانے کے بعد آپ لوگوں سے کہیں کہ اب آپ سیدھے لائن کے آخر میں جا کر کھڑے ہوجائیں، جب تک دوبارہ آپ کا نمبر آئے گا ٹیکہ کی افادیت ختم ہوچکی ہوگی۔

’ معلوم نہیں کہ ڈی جی صاحب کو خود یہ انقلابی آئیڈیا آیا تھا‘ (فوٹو: روئٹرز)

یہ تو معلوم نہیں کہ ڈی جی صاحب کو خود یہ انقلابی آئیڈیا آیا تھا یا کسی خیر خواہ نے کوہنی مار کر اشارہ کیا تھا کہ بھائی یوم آزادی تک ٹیکہ تیار کروا دو، وزیراعظم لال قلعہ سے اپنی تقریر میں اس کا اعلان کردیں گے اور آپ پوری دنیا میں ہیرو بن جائیں گے۔
ڈی جی صاحب اب کہہ رہے ہیں کہ ان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آزمائش کے مرحلے کو چھوٹا یا ختم کردیا جائے، وہ بس یہ چاہتے تھے کہ ’ریڈ ٹیپ‘ میں وقت برباد نہ ہو۔
لوگ کہاں کسی کو کوئی اچھا کام کرنے دیتے ہیں۔ اعتراض کرنے کو تو آپ کرتے رہیں لیکن یہ حکمت عملی کہاں بری ہے کہ سب کو یہ ٹیکہ لگا دیا جائے، اگر کام کر گیا تو کیا کہنے نہیں کیا تو دنیا بھر میں بہت سے دوسرے اداروں کے تیار کردہ ٹیکے بھی کلینکل ٹرائل کے مرحلے سے گزر رہے ہیں، تیار ہوتے ہی دوسرا ٹیکہ لگا دیں گے، اور کہہ دیں گے کہ ہمیں پہلے سے ہی معلوم تھا کہ یہ ٹیکہ لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
مگر لوگ پریشان ہو رہے تھے اس لیے سوچا کہ فی الحال جو ہے اسی سے کام چلا لیتے ہیں، لوگوں کو تھوڑی تسلی ہو جائے گی اور دل بھی لگا رہے گا۔

’ پاتنجلی نے دو ہفتے پہلے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے کورونا کی دوا ایجاد کر لی ہے‘ (فوٹو: روئٹرز)

اگر آپ کو لگے کہ جو آئی سی ایم آر نے کیا وہ کوئی غیر معمولی بات تھی تو یوگا گورو بابا رام دیو کی کہانی بھی سن لیجیے۔ ان کےادارے پاتنجلی نے دو ہفتے پہلے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے کورونا وائرس کی دوا ایجاد کر لی ہے۔
جب اس دعوے کو چیلنج کیا گیا، شاید انہی لوگوں نے کیا ہوگا جو اب پھر شور مچا رہے ہیں، تو پاتنجلی نے کہا کہ ہم نے یہ دعویٰ کیا ہی نہیں تھا کہ اس دوائی سے کورونا وائرس کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ دوائی کا نام ’کورونیل‘ ہے۔ اب پاتنجلی کا کہنا ہے کہ یہ دوائی جسم کی قوت مدافعت بڑھاتی ہے۔
اتراکھنڈ کے محکمہ ادویات نے صرف دو دن میں اس آیورویدک دوائی کے استعمال کی منظوری دے دی تھی۔ یہ لوگ بھی شاید یہ ہی مان کر چلتے ہیں کہ دوائی سے فائدہ نہ بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ بیماری کا آدھا علاج دوائی سے اور آدھا ذہنی کیفیت یا نفسیات سے ہوتا ہے۔ اور دوائی بنانے والے پر بھی تو کچھ بھروسہ کرنا چاہیے، خراب یا غلط دوائی بنانے سے اسے کیا فائدہ ہوگا؟
لیکن صرف دوائی بنانے والوں کو کیوں دوش دیں؟ جب ملک میں کورونا وائرس کے کیسز نہ ہونے کے برابر تھے تو لوگ گھروں میں بند تھے۔ سو فیصد لاک ڈاؤن تھا۔ اب صرف دلی میں ایک لاکھ  کیسز ہو چکے ہیں اور پورے ملک میں سات لاکھ سے زیادہ، اور یہ تو مصدقہ کیسز ہیں، اصل تعداد کہیں زیادہ ہوگی۔

’ آپ سڑکوں پر نکلیں تو ایسا لگتا ہے کہ کسی میلے میں آگئے ہوں‘ (فوٹو: روئٹرز)

لیکن آپ سڑکوں پر نکلیں تو ایسا لگتا ہے کہ کسی میلے میں آگئے ہوں، جیسے خطرہ ٹل چکا ہو۔ بس اچھی بات یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ ماسک پہن کر نکل رہے ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ ماسک منہ اور ناک پر نہیں ہوتا۔
جہاں تک سکندر اعظم کا سوال ہے، اس نے صرف ایک دہائی میں دنیا کی شکل بدل دی تھی۔ کورونا وائرس نے بھی بدل دی ہے۔ پھر صرف 32 سال کی عمر میں سکندر کو بخار ہوا اور اس نے دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔
سکندر کا ذکر اس لیے کیا کہ اس کا جنم356  قبل از مسیح میں جولائی کے مہینے میں ہی ہوا تھا اور جو بڑی بڑی جنگوں میں خطرناک دشمن نہیں کر پائے وہ جوانی میں ایک بخار سے ہوگیا۔
کورونا وائرس کا خطرہ ختم نہیں ہوا ہے۔ اپنا خیال رکھیے گا۔

شیئر:

متعلقہ خبریں