جمعے کی دوپہر سکھ برادری کے افراد پنجاب میں واقع ایک گردوارے پر حاضری دینے جا رہے تھے کہ راستے میں ان کی بس ٹرین سے ٹکرا گئی، جس میں تقریباً بائیس افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ گردوارہ ضلع شیخوپورہ کے ایک گاؤں سچا سودا میں واقع ہے جو سکھوں کے نزدیک بہت زیادہ مذہبی اہمیت کا حامل ہے۔
سچا سودا گاؤں کے رہائشی رانا وحید نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ جیسے ہی جائے حادثہ پر پہنچے تو ایک درد ناک منظر تھا، لاشیں ریل کی پٹڑی کے دونوں طرف ایسے پڑی ہوئی تھیں جیسے کوئی جنگ ابھی رکی ہو۔
مزید پڑھیں
-
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا: کیا ریل پٹڑی سے اتر رہی ہے؟Node ID: 425396
-
طیارہ حادثہ: جب امریکی شہری کی میت غلط خاندان کو دی گئیNode ID: 489536
-
شیخوپورہ: بس اور ٹرین میں تصادم، سکھ خاندان کے 22 افراد ہلاکNode ID: 489796
’ٹکر لگنے کے بعد ٹرین رکتے رکتے بھی کوئی ایک کلو میٹر چلتی رہی جبکہ بس کا پنجرا ریل کے انجن کے آگے پھنسا ہوا تھا۔‘
عینی شاہد رانا وحید کا کہنا تھا کہ وہ حادثے سے پانچ منٹ بعد ہی جائے وقوعہ پر پہنچ گئے تھے جو ان کے گھر سے دو منٹ کے فاصلے پر ہے۔
’اچانک گاؤں کے ایک نکڑ سے شور بلند ہوا کہ ٹرین نے بس کو ٹکر مار دی ہے اور پھر ہر کوئی جائے حادثہ کی طرف لپکا۔‘
انہوں نے کہا کہ شدید گرمی میں گاؤں کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو چارپائیوں پر ڈالنا شروع کیا، کوئی پانی لا رہا تھا تو کوئی ہاتھ کے پنکھوں سے ہوا دے رہا تھا۔
’کئی لوگ بس کے لوہے کو کاٹ کر اس میں سے زخمیوں کو باہر نکال رہے تھے۔ پندرہ سے بیس منٹ بعد پولیس اور دیگر ریسکیو کے ادارے پہنچنا شروع ہو گئے اور گاؤں والوں نے ان کے ساتھ بھی امدادی کام جاری رکھا۔‘
’پہلے دس پندرہ منٹ تو کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا، جو زخمی لوگ بچ گئے تھے وہ بالکل حواس باختہ تھے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/July/36486/2020/000_1uj92n.jpg)
رانا وحید کا کہنا تھا کہ سب سے ہولناک مناظر وہ تھے جب ان کے گاؤں میں رہنے والے سکھ برادری کے لوگ جائے حادثہ پر پہنچے۔
’جب ویسے ہی آپ کسی ملک میں اقلیت کے طور پر رہ رہے ہوں، ایسے میں اچانک آپ کا اپنا قبیلہ حادثے کا شکار ہو جائے، ایسے میں آپ ان کے تاثرات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔‘
رانا وحید کا کہنا تھا کہ حادثے کے مناظر تو دل خراش تھے ہی لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ تصادم سے بچا جا سکتا تھا۔
’کراچی جانے والی ٹرین کا وقت تھا اور گاؤں میں داخل ہونے والی پکی سڑک پر لگا پھاٹک بند تھا، اور وہاں دو بسیں پہلے ہی پھاٹک کھلنے کا انتظار کر رہی تھیں۔ یہ تیسری بس پیچھے سے آئی اور اس کا ڈرائیور انتظار کرنے کے بجائے کچی سڑک پر اتر گیا۔ تقریباً دو کلومیٹر کچی سڑک پر سفر کرنے کے بعد ڈرائیور نے ٹرین کی پٹڑیوں پر بنی ایک راہداری کے ذریعے گاؤں میں داخل ہونے کی کوشش کی، اور جیسے ہی وہ پٹڑی پر پہنچا عین اسی لمحے ٹرین بھی پہنچ گئی۔‘
رانا وحید نے بتایا کہ یہ راہداری مال مویشی یا چارہ ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے بنی ہے، جس کو صرف گاؤں والے ہی استعمال کرتے ہیں۔
’ایسا نہیں تھا کہ بس پٹڑی پر خراب ہو گئی ہو یا پھنس گئی ہو۔ اس کے باوجود ٹرین کے آگے گاڑی لے جانا سمجھ سے باہر ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/July/36486/2020/000_1uj8gy.jpg)