پاکستان کی قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کے پاس کل 34 طیارے ہیں جن میں سے تین ناکارہ ہوجانے کے باعث قابل مرمت بھی نہیں رہے جبکہ 31 طیارے زیر استعمال ہیں اور بوقت ضرورت ان کی مرمت بھی کی جا سکتی ہے۔
قومی اسمبلی اجلاس کے دوران وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان کی جانب سے تحریری جواب میں بتایا گیا ہے کہ پی آئی اے کے پاس بی 777 اور 320 کی تعداد بارہ بارہ ہے۔ اے ٹی آر-72 کی تعداد 5 جبکہ اے ٹی آر-42 کی تعداد بھی 5 ہے۔
'قابل استعمال طیاروں میں بی 777 کی تعداد 12، اے 320 کی تعداد بھی 12، اے ٹی آر-72 کی تعداد 4 جبکہ اے ٹی آر-42 کی تعداد 3 ہے۔'
مزید پڑھیں
-
جدہ سے خصوصی پرواز، مزید 255 پاکستانیوں کی واپسیNode ID: 481951
-
امریکہ کی پی آئی اے کی فلائٹس پر پابندیNode ID: 491221
-
’ایک سال میں پرندے ٹکرانے سے 18 پی آئی اے طیارے متاثر‘Node ID: 493521
انہوں نے بتایا کہ ناقابل استعمال طیاروں میں بی 777 اور اے 320 میں کوئی شامل نہیں، تاہم ایک اے ٹی آر-72 اور دو اے ٹی آر-42 ناقابل استعمال ہیں۔
اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کی ناز بلوچ نے سوال اٹھایا کہ سول ایوی ایشن سالانہ بنیادوں پر لائسنس کی تجدید کرتی ہے اور پی آئی اے بھی خود سال میں دو مرتبہ لائسنس کی تصدیق کرتی ہے اس کے باوجود پائلٹس کے لائسنس کیسے پوشیدہ رہ سکتے ہیں؟
اس پر پارلیمانی سیکرٹری برائے ایوی ایشن جمیل احمد نے جواب دیا کہ سرور میں نئے پاسورڈ اور آئی پی ایڈریس میں مداخلت کی کوشش کی گئی جس سے اندازہ ہوا۔
'پہلے ایسا بھی ہوا کہ پائلٹ جہاز بھی اڑا رہا ہوتا تھا اور اسی دوران امتحان میں بھی موجود ہوتا تھا، اب ہم نے اس کی نشاندہی کر لی ہے۔ ایسے اقدامات کیے ہیں کہ دوبارہ ایسا نہیں ہو سکے گا۔'
سوالوں کے جواب دیتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری سول ایوی ایشن جمیل احمد نے پی آئی اے کی تباہی کا ذمہ دار سابق حکومتوں کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'ان کے دور کی خرابیاں ہمیں دور کرنا پڑ رہی ہیں، ہم نے ادارے تباہ نہیں کیے۔'
