عازمین کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ چھوٹی ٹولیوں میں فرش پر بنائے گئے نشانات کے اوپر چلیں۔ یہ اس کے بالکل برخلاف تھا جو عام طور پر حج کے دنوں میں کعبہ کے گرد جم غفیر کی شکل میں ہوتا ہے۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے بچنے کے لیے اس بار پچیس لاکھ کی تعداد کے مقابلے میں عازمین کی تعداد ایک ہزار تک محدود رکھی گئی ہے۔
اس مرتبہ حج کے موقع پر پہلی بار خواتین آفیسرز بھی مکہ پولیس فورس کے ساتھ فرائض انجام دے رہی ہیں۔ خواتین آفیسرز کو 2019 میں تربیت دی گئی تھی۔
افنان ابو حسین اس پہلے گروپ میں شامل تھیں جس کو تربیت دی گئی۔ ’یہ ہمارے لیے فخر اور خوشی کا باعث ہے۔‘
مقدونیہ سے تعلق رکھنے والی عازمہ حمیدی حلیمی نے عرب نیوز کو بتایا کہ انہیں بہت خوشی ہو رہی ہے کہ وہ دوسری خواتین کے ساتھ حج ادا کر رہی ہیں۔
’میرے گروپ میں 20 کے قریب خواتین ہیں اور اس پورے عمل میں، میں صرف خواتین کے ساتھ رہی ہوں، بہنوں کا سا یہ تعلق بڑا خوشگوار ہے۔‘
حلیمی اس سے قبل عمرہ کر چکی ہیں لیکن بہت زیادہ رش کی وجہ سے وہ طواف کے لیے اندر تک نہیں جاسکیں اور مسجد الحرام کی چھت سے ہی طواف کرنا پڑا تھا۔
اس بار وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ وہ خانہ کے اس قدر قریب ہوں گی۔
’یہ ایک ایسا حیران کن لمحہ تھا جس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایسا ہو گا۔‘
بدھ کو عازمین منیٰ میں اپنی رہائش گاہوں پر پہنچے جہاں انہوں نے رات عبادات میں گزاری جبکہ آج صبح سے حج کے مزید مناسک ادا کر رہے ہیں ۔ آج وہ عرفات کے پہاڑ پر چڑھیں گے۔
انڈیا سے تعلق رکھنے والے 29 سالہ عمار خالد جو سعودی عرب میں پیدا اور بڑے ہوئے، نے بتایا اگرچہ وہ حج کے موقع پراکیلے ہیں تاہم وہ اپنے تمام پیاروں کے لیے دعا مانگ رہے ہیں۔
’میرے پاس الفاظ نہیں کہ بتا سکوں کہ میں کس قدر شاد اور مبارک محسوس کر رہا ہوں۔‘