کشمیر میں سیاسی بے یقینی، حریت کانفرنس کا مستقبل کیا؟
کشمیر میں سیاسی بے یقینی، حریت کانفرنس کا مستقبل کیا؟
بدھ 5 اگست 2020 6:20
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
میرواعظ عمر فاروق کی قیادت میں حریت کانفرنس کا ایک دھڑا مشرف کے موقف پر قائل ہو گیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
سالہا سال کی الگ الگ سیاست اور کشمیر میں بڑھتی ہوئی عسکری کارروائیوں کے بعد جب نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید کشمیری رہنماؤں نے طے کیا کہ وہ سب مل کر ایک پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کریں گے تو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے مسلمانوں میں امید پیدا ہوئی کہ شاید ان کو ایسی قیادت میسر آ گئی ہے جو ان کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے سیاسی جدوجہد کے ساتھ حق خود ارادیت کی منزل پا لے گی۔
اس تناظر میں 1993 میں تشکیل پانے والی آل پارٹیز حریت کانفرنس (اے پی ایچ سی) اتنی مقبول ہوئی کہ ایک وقت میں اسے ہی آزادی پسند کشمیری عوام کا حقیقی نمائندہ پلیٹ فارم خیال کیا جاتا تھا جو دنیا بھر میں کشمیریوں کا موقف پیش کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔
حتیٰ کہ مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) نے بھی اسے مبصر کا درجہ دیا اور تنظیم کے رہنماؤں نے پاکستان سمیت کئی ملکوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔ تاہم گذشتہ کچھ برسوں سے یوں لگ رہا ہے کہ حریت کانفرنس منظر نامے سے غائب ہی ہو گئی ہے۔
گذشتہ سال 5 اگست کو انڈیا نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی علیحدہ آئینی حثییت ختم کر کے عملاً اسے انڈیا میں ہی ضم کر دیا پھر بھی حریت کانفرنس کی طرف سے کوئی خاص سیاسی مزاحمت کیوں سامنے نہیں آ رہی؟ کیا انڈیا نے حریت کانفرنس کو بے اثر کر دیا ہے یا سیاسی لاوا جلد پھٹ پڑے گا؟
حریت کانفرنس کب اور کیسے تشکیل پائی؟
حریت کانفرنس کے بانی رہنماؤں کی اکثریت نے 1987 میں ہونے والے کشمیر کے ریاستی انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ تاہم ان کے بقول جس طریقے سے انتخابات میں انہیں وسیع پیمانے پر دھاندلی کر کے ہروایا گیا اس نے انہیں انڈیا کے انتخابی عمل سے مکمل طور پر بدظن کر دیا۔ جس کے بعد انہوں نے آئندہ انتخابی سیاست کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا اور اس دوران کشمیر میں عسکریت پسندی کو فروغ ملا۔ ان سیاسی رہنماؤں کو انڈیا بھر کی جیلوں میں قید کر دیا گیا۔
1990 میں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا اور یہاں انڈیا سے آزادی کی مسلح جدوجہد شروع ہو گئی. دوسری طرف سید علی گیلانی، شبیر شاہ، عبدالغنی لون سمیت تمام اہم کشمیری رہنما بدستور انڈیا کی قید میں تھے اور اطلاعات کے مطابق انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بھی بنایا جا رہا تھا۔
یہ کشمیریوں کے لیے ایسا دور تھا کہ نئی دہلی میں مقیم کشمیری صحافی افتخار گیلانی کے مطابق جس طرح ہر محلے کی اپنی کرکٹ ٹیم ہوتی ہے اس طرح ڈیڑھ سو کے قریب عسکری تنظیمیں وجود میں آ گئیں اور ان میں سے چند میں ایسے شرپسند عناصر بھی شامل ہو گئے جو کشمیریوں سے ہی اسلحے کے زور پر لوٹ مار اور بھتہ لینے میں ملوث تھے۔
انڈیا کے زیر انتظام پورے کشمیر میں بدانتظامی اور انتشار پھیل گیا اور انڈیا کی حکومت کو محسوس ہونا شروع ہو گیا کہ سیاسی رہنماوں کو قید رکھنے کے مثبت کے بجائے منفی نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف انڈیا میں مقیم غیر ملکی سفارتکاروں نے بھی دہلی سرکار پر زور دیا کہ سیاسی قیادت کو راستہ دیا جائے تاکہ انتشار ختم ہو سکے اور حکومت اور عالمی برادری کو کشمیریوں سے بات کرنے کے لیے نمائندے مل سکیں۔
ان حالات میں انڈیا کی حکومت 1992 میں مجبور ہوئی کہ تمام کشمیری رہنماوں کو نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں اکھٹا رکھے اور ان کو آپس میں رابطے کی اجازت دے تاکہ صورتحال کو کچھ سنبھالا جا سکے۔ ساتھ قید کے انہی دنوں میں کشمیر کے سیاسی رہنماوں نے ایک پلیٹ فارم سے مشترکہ جدوجہد کا فیصلہ کیا ۔پھر دسمبر 1992 میں کشمیر کی جامع مسجد کے امام میر واعظ فاروق کے قتل کے بعد ان کے انیس سالہ صاحبزادے عمر فاروق میر واعظ کے عہدے پر فائز ہوئے اور اپنی رہائش گاہ پرآزادی پسند کشمیری رہنماوں کو اکھٹا کیا تاکہ مشترکہ جدوجہد کا آغاز ہو سکی۔ اس کے چند ماہ بعد 1993 میں حریت کانفرنس وجود میں آگئی جس کے پہلے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق ہی بنے۔
دو درجن کے قریب سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اس اتحاد کے دیگر اہم رہنماوں میں سید علی گیلانی جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا، پروفیسرعبد الغنی بٹ ( مسلم کانفرنس) اور عبدالغنی لون (پیپلز کانفرنس) اور شبیر شاہ، اور عباس انصاری شامل تھے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما یاسین ملک جو پاکستان اور انڈیا دونوں سے آزادی کے حق میں تھے وہ اس تنظیم کا باقاعدہ حصہ نہ بنے مگر سیاسی طور پر اس کے اتحادی بن گئے تاہم بعد میں وہ اس کا حصہ بھی بنے۔ اس طرح ایک ایسا پلیٹ فارم وجود میں آ گیا جسے نہ صرف کشمیری عوام کی حمایت حاصل تھی بلکہ پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی بھی ہمدردیاں حاصل تھیں۔ پاکستان کی ہی کوششوں سے اسے او آئی سی میں مبصر کا درجہ دیا گیا۔
حریت کانفرنس کا سیاسی اور سفارتی کردار
حریت کانفرنس کے قیام نے نہ صرف کشمیریوں کو ایک سیاسی پلیٹ فارم مہیا کیا تاکہ اپنی آواز اور امنگیں دنیا تک پہنچا سکیں بلکہ ریاست کے اندر بھی بدامنی کا خاتمہ کیا اور ایسے جعل ساز جو تحریک آزادی میں شامل ہو کر لوٹ مار کرتے تھے ان کا راستہ رک گیا۔
افتخار گیلانی کے مطابق انٖڈیا کی حکومت اور وہاں موجود غیر ملکی سفارت کاروں نے بھی حریت کانفرنس کے قیام کے بعد کسی قدر سکھ کا سانس لیا کیونکہ اب ان کو معلوم تھا کہ کشمیر میں کوئی مسئلہ ہو تو کس سے بات چیت یا مذاکرات کرنے ہیں۔ 'جب سید علی گیلانی صاحب کو چھوڑا گیا تھا تو کشمیر کے علاقے سوپور میں انارکی کنٹرول میں آ گئی تھی۔ حریت کانفرنس ایک پوسٹ آفس تھی وہ کشمیریوں کے جذبات کی ترجمان تھی اس کے آنے سے سب سے بڑا فائدہ ہوا کہ بھتہ لینے والی مسلح تنظیمیں بند ہو گئیں۔'
پاکستان میں کئی دہائیوں سے کشمیر کے معاملات کی کوریج کرنے والے صحافی سردار عاشق حسین کے مطابق حریت کانفرنس کا بس ایک نکاتی ایجنڈا تھا کہ انڈیا سے آزادی کیسے حاصل کرنی ہے۔ ابتدا میں حریت کانفرنس کو عوام میں اتنی مقبولیت حاصل نہ ہوئی تاہم بعد میں ان کی پکار پر کشمیر میں ہڑتالیں کامیاب ہو جاتی تھیں اور احتجاج میں کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے۔ سفارتی محاذ پر بھی حریت کانفرنس کامیاب تھی اور حریت کانفرنس کو او آئی سی کے کشمیر رابطہ گروپ کے اجلاس میں بلایا جاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی یوم پاکستان اور یوم آزادی کی تقریبات میں حریت رہنماوں کو خاص طور پر مدعو کیا جاتا رہا ہے۔
سردار عاشق کے مطابق حریت کانفرنس کے رہنماوں میرواعظ عمر فاروق، عبدالغنی بٹ اور یاسین ملک نے ماضی میں پاکستان کے دورے بھی کیے ہیں اور یاسین ملک نے تو شادی بھی راولپنڈی سے ہی کر رکھی ہے ان کی اہلیہ مشال ملک پاکستان میں مقیم ہیں اور کشمیروں کے لیے آواز بلند کرتی رہتی ہیں۔ نوے کی دہائی سے پاکستانی رہنما انڈیا کے دورے کے دوران حریت رہنماوں سے ملاقاتیں کرتے آئے ہیں جس پر انڈیا نے بعض اوقات پاکستان سے شدید احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔
سنہ 2008 میں انڈیا اور جموں و کشمیر کی ریاستی حکومت کی جانب سے ہندو شری امرناتھ شرائن بورڈ کو زمین منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف کشمیر بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے جو کہ 1990 کے بعد سب سے بڑے مظاہرے تھے اس میں حریت رہنما سید علی گیلانی نے اہم کردار ادا کیا اور ان کی مقبولیت عروج پر پہنچ گئی۔
حریت کانفرنس میں تقسیم
حریت کانفرنس چونکہ مختلف الخیال تنظیموں کا مجموعہ ہے اس لیے اس میں آپس کے اختلافات پیدا ہونا عین فطری تھا۔ تاہم معمولی اختلافات 2003 میں اس وقت شدت اختیار کر گئے جبکہ کشمیری آزادی پسند رہنماوں کا مستقبل کے لائحہ عمل پر اتفاق نہ ہو سکا۔ پاکستان کے اس وقت کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے کشمیر کے مسئلے کے لیے جو چار نکاتی فارمولہ پیش کیا تھا اسے حریت کے سخت موقف رکھنے والے سید علی گیلانی نے مسترد کر دیا اور انڈیا سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کے مطالبے پر ڈٹ گئے۔
تاہم میرواعظ عمر فاروق کی قیادت میں حریت کا دوسرا دھڑا مشرف کے موقف پر قائل ہو گیا اور انڈیا کے اس وقت کے وزیراعظم واجپائی اور دیگر حکام سے مذاکرات بھی کئے ۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان مذاکرات کو بھی میر واعظ دھڑے کی حمایت حاصل تھی تاہم یہ مذاکرات بوجوہ کامیاب نہ ہو سکے اور جنرل مشرف چیف جسٹس افتخار چوہدری کو معطل کرنے کے فیصلے کے بعد ملکی سطح پر شدید غیر مقبول ہو گئے اور بالآخر انہیں 2008 میں استعفی دینا پڑا اور ان کا فارمولہ ان کے ساتھ ہی تاریخ کا حصہ بن گیا۔
حریت کانفرنس کی تقسیم برسوں قائم رہی حتی کہ 2016 میں حزب المجاہدین کے سرکردہ کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کا واقعہ ہو گیا اور کشمیر ایک بار پھر مظاہروں اور احتجاج کا مرکز بن گیا۔ اس وقت میرواعظ عمر فاروق، سید علی گیلانی اور یاسین ملک نے مل کر ایک نیا اتحاد تشکیل دیا جسے جوائنٹ ریزسٹنٹ لیڈرشپ یا جے آر ایل کا نام دیا گیا۔ تاہم بعد میں اس کی تمام قیادت پابندیوں کا شکار ہونے کی وجہ سے یہ فورم بھی اس وقت غیر موثر ہو چکا ہے۔ اس سال جون میں سید علی گیلانی نے بھی اختلافات کے بعد حریت کانفرنس سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔
انڈیا کے حریت کانفرنس کے خلاف اقدامات
گو کہ ابتدا میں انڈیا نے حریت کانفرنس کی تشکیل سے کچھ سکھ کا سانس لیا اور عسکریت پسندوں کے مقابلے میں اس فورم کو کچھ حکومتی رعایتیں بھی ملیں تاہم اس کا آزادی پسند ایجنڈا اور پاکستان کی حمایت کو انڈیا کو قبول نہ تی اور وہ آہستہ آہستہ اس کے رہنماوں کو مقدمات اور دیگر پابندیوں کا شکار کرتا چلا گیا۔
ابتدا میں بین الاقوامی فورمز پر مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے پر حریت رہنماوں پر سفری پابندیاں عائد کی گئیں پھر انکی سفری دستاویزات ضبط یا کینسل کی گئیں اور اس کے بعد ایک ایک کر کے قیادت کو جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ اس وقت سید علی گیلانی اور میرواعظ عمر فارق نظر بند ہیں۔ یاسین ملک 1990 کے پرانے مقدمے میں جیل میں ہیں انکی جماعت جموں کشمیر لبریشن فرنٹ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور ان کے خلاف دھشت گردی کے مقدمات میں کاروائی کی جا رہی۔ شبیر شاہ کے خلاف بھی دھشت گردی کے مقدمات بنا کر انہیں جیل میں ڈالا گیا ہے جبکہ حریت کانفرنس کی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت بھی جیلوں میں ڈال دی گئی ہے۔ ایسے میں حریت کانفرنس صرف پاکستان سے ہی بیان جاری کر پا رہی ہےکیونکہ انڈیا نے فور جی انٹرنیٹ پر پابندی کے ذریعے نہ صرف ان کے رابطے کے ذرائع منقطع کر رکھے ہیں بلکہ کسی اخبار کو ان کے بیان شائع کرنے کی اجازت نہیں ہے اور خلاف ورزی کرنے والے اخبارات اور صحافیوں کے خلاف انسداد دھشت گردی کے قوانین کے تحت کاروائی کی جاتی ہے۔
حریت کانفرنس کا مستقبل کیا ہوگا
عملا بے اثر کر دینے کے بعد کیا انڈیا حریت کانفرنس کے کردار کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس سوال پر انڈیا میں موجود صحافی افتخار گیلانی کا کہنا ہے کہ صورتحال پھر نوے کی دہائی کی طرف جا چکی ہے جب کہ پانچ اگست کے اقدام اور کشمیر میں لاک ڈاون اور انٹرنیٹ کی پابندیوں اور گرفتاریوں کے بعد ایک سیاسی خلا پیدا ہو گیا ہے جس کا نتیجہ انارکی ہوگا۔ ایسا زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا ایسے میں انڈیا پھر مجبور ہو گا کہ سیاسی قیادت سے بات کرے انہیں جیلوں سے رہا کرے اور انہیں عوام کی نمائندگی کا حق دے تاکہ معاملات آگے بڑھ سکیں۔
سابق حریت رہنما سید علی گیلانی کے پاکستان میں ترجمان سید عبداللہ گیلانی کہتے ہیں کہ پانچ اگست 2019 کے بعد بھی 92 سالہ علی گیلانی شدید علیل ہو کر بھی چپ نہیں بیٹھے، انہوں نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو دو خطوط لکھے جن میں سے ایک کا وزیراعظم نے جواب بھی دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حریت کانفرنس ایک جماعت نہیں ایک جذبہ ہے جسے انڈیا نہیں دبا سکتا۔