امونیم نائٹریٹ کا ذخیرہ بیروت دھماکوں کی ممکنہ وجہ
امونیم نائٹریٹ کا ذخیرہ بیروت دھماکوں کی ممکنہ وجہ
بدھ 5 اگست 2020 18:35
لبنانی وزیراعظم نے کہا کہ جو کچھ ہوا احتساب کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے (فوٹو: اے ایف پی)
لبنان میں سرکاری ذرائع کے مطابق ابتدائی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دھماکہ خیز مواد ذخیرہ کرنے کے حوالے سے سالوں کی عفلت بیروت کے دھماکوں کی وجہ بنی جس سے سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
عرب نیوز کے مطابق کہ وزیراعظم اور ایوان صدر نے منگل کو کہا تھا کہ بموں اور فرٹیلائزر میں استعمال ہونے والا دو ہزار سات سو 50 ٹن امونیم نائٹریٹ حفاظتی اقدامات کے بغیر چھ برسوں تک بندرگاہ میں سٹور تھا۔
سرکاری ذرائع نے عرب نیوز کو بتایا کہ 'یہ غفلت کا نتیجہ ہے۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ سٹوریج کی حفاظت کے معاملے کو کمیٹیوں اور ججوں کے سامنے رکھا گیا تھا لیکن انتہائی دھماکہ خیز مواد کو ہٹانے یا ضائع کرنے سے متعلق کچھ نہیں کیا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ بندرگاہ کے نویں گودام میں آگ لگی اور پھر یہ 12 نمبر کے گودام تک پھیل گئی جہاں پر امونیئم نائٹریٹ سٹور تھا۔
منگل کو ہونے والا دھماکہ بیروت کا سب سے طاقتور دھماکہ تھا۔ تین دہائیاں قبل یہ شہر خانہ جنگی کا شکار ہوا تھا اور کئی دہائیوں کی بدعنوانی اور معاشی بد انتظامی کی وجہ سے گہرے مالی بحران سے دو چار ہے۔
لبنانی کسٹمز کے ڈائریکٹر جنرل بدری داہر نے بدھ کو براڈ کاسٹر ایل بی سی آئ کو بتایا کہ کسٹم نے عدلیہ کو چھ دستاویزات بھیجے تھے جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ اس مواد سے خطرہ درپیش ہیں۔
حکام کے مطابق اڑھائی سے تین لاکھ لوگ بے گھر ہوئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
ایک اور ذرائع نے بتایا کہ ایک ٹیم جس نے چھ مہینے پہلے ایمونیم نائٹریٹ کا معائنہ کیا، خبردار کیا تھا کہ اگر اس مواد کو منتقل نہیں کیا گیا تو یہ بیروت کو اڑا دے گا۔
خبررساں ادارے روئٹرز کی جانب سے دیکھے گئے دو دستاویز کے مطابق لبنانی کسٹم نے عدلیہ کو 2016 اور 2017 میں عدالت سے درخواست کی کہ متعلقہ میری ٹائم ایجنسی کو حکم دے کہ یا توایمونیم نائٹریٹ کو دوبارہ برآمد کیا جائے یا اس کے فروخت کی اجازت دی جائے۔
2014 اور 2015 میں بھی ایک اور دستاویز میں بھی اسی قسم کی درخواستوں کو حوالہ دیا گیا ہے۔
سابق نائب وزیر اعظم اور لبنیز فورسز پارٹی کے رکن غسان حسبانی کا کہنا ہے کہ بندرگاہ پر جس پیمانے پر سامان لایا گیا اسے مد نظر رکھتے ہوئے اس واقع پر مقامی اور بین الاقوامی تحقیقات ہونی چاہیے۔