Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ڈیزائنرز کا رجحان روایتی عروسی ملبوسات کی طرف‘

پاکستان میں بننے والے عروسی ملبوسات کو پوری دنیا میں پسند کیے جانے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے کلچر کا عکس ہمارے عروسی جوڑوں میں نظر آتا ہے۔
عروسی ملبوسات کو جدت بخشنے میں ہمارے ڈریس ڈیزائنرز کی محنت شامل ہے۔ انہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ بلاشبہ لوگوں کے مزاج کو تبدیل کیا ہے۔
اب جیسا کہ موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی شادیوں کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ 2020 میں برائیڈل ٹرینڈز کیا ہیں؟ اس حوالے سے ہم نے معروف فیشن ڈیزائنر کامیار روکنی سے بات کی۔

 

 انہوں نے  بتایا کہ یہ سال کافی چیلنجنگ رہا ہے۔ کوورونا وائرس کی وجہ سے شادی کی تقریبات چھوٹی ہوئی ہیں۔ اس وقت لوگ بجٹ کے ساتھ ساتھ معیار کے بارے میں خاصے حساس ہیں۔
’میں اس وقت مارکیٹ میں روایتی برائیڈل ٹرینڈز دیکھ رہا ہوں۔ جو ڈیزائنرز ماڈرن برائیڈل ملبوسات بنا رہے تھے وہ بھی روایتی عروسی جوڑوں کی طرف آ گئے ہیں، گوٹا، زردوزی، جامہ وار اور رنگوں میں لال، میرون، گہرا پلمپ اور شاکنگ پنک نمایاں نظر آ رہا ہے۔‘
ان کے مطابق ’ولیمے پر تو لوگ ہلکے رنگ زیب تن کرتے ہیں لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ گرے اور سلور کا ٹچ کم ہو گیا ہے۔ لوگ ہلکے رنگوں کے امتزاج کو پسند کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس جو گاہک آتے ہیں وہ روایتی لُکس کے لیے آتے ہیں ہم اپنے کپڑوں میں گوٹا، ریشم، زردوزی مکس کرتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ ایک گارمنٹ میں جتنی بھی ٹیکنیکس ہو سکتی ہیں۔ ان کا استعمال کرتے ہیں۔‘
کامیار روکنی  نے کہا کہ ’کووڈ 19کی وجہ سے میں نے سوچا کہ شاید اس مرتبہ برائیڈل جوڑوں میں لوگ کچھ ہلکا پھلکا پہننا پسند کریں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے تقریبات کا سائز چھوٹا ضرورہوا ہے لیکن دلہن، دلہن ہی لگنا چاہ رہی ہے۔‘

اگر دلہن لال جوڑا پہننا چاہتی ہے تو گولڈن رنگ کو ترجیح دی جا رہی ہے (فوٹو اردو نیوز)

اس کے علاوہ کلاسک ون کلر کا برائیڈل ٹرینڈ بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ اگر دلہن لال جوڑا پہننا چاہتی ہے تو گولڈن رنگ کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
فیبرک میں ٹشو جو کہ ہمیشہ سے ہی برائیڈل ملبوسات کی تیاری میں اہم سمجھا جا تا رہا ہے، وہ آج بھی مقبول ہے اورگینزا، بروکیڈ اور جامہ وار کا بہت زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں  کہ ان کپڑوں میں کلچر کا عنصر بھی نظر آئے لہذا مختلف ممالک کے کلچر سے انسپریشن لے کر جوڑوں کی تخلیق پر بھی توجہ دی جا رہی ہے کیونکہ ہر کلائنٹ اپنے ڈیزائن میں کلچر کا رنگ نمایاں چاہتا ہے۔
باقی لہنگے ،غرارے تو چل رہے ہیں لیکن زیادہ ٹرینڈ میں فلیٹ کلی دار قمیض ہے کسی بھی دلہن کو سادی اے لائن قمیض نہیں چاہیے یا اس کو لہنگا چولی چاہیے یا پھر کلی دار فلئیرڈ قمیض اس کے ساتھ غرارہ، لہنگا اور شرارہ کچھ بھی ہو سکتا ہے  وہ ان کی اپنی چوائس پر منحصر ہے۔ دوپٹے کے لیے دلہنوں کو لمبے اور ماتھے کی طرف سے باڈر ہیوی چاہیے ہوتا ہے۔
کامیار روکنی نے مزید کہا کہ ہر چیز کا ایک ٹرینڈ ہوتا ہے۔ پچھلی دہائی کے ملبوسات میں مغربی اور یورپین ٹچ زیادہ نظر آتا تھا۔ کئی برینڈز نے تجربات بھی کیے لیکن بعض برینڈ لیڈرز ہوتے ہیں اور باقی ان کے فالورز جیسے ویسٹرن برائیڈل ملبوسات ’اعلان‘ برینڈ نے بنانے شروع کیے تو باقی برینڈز بھی ان کے پیچھے چل پڑے۔

کچھ ڈیزائنر ایسے بھی ہیں جو اپنے روایتی کام سے پیچھے نہیں ہٹے (فوٹو اردو نیوز)

 جبکہ کچھ ڈیزائنر ایسے بھی ہیں جو اپنے روایتی کام سے پیچھے نہیں ہٹے ان میں منٹو کاظمی اور فائزہ سمیع کا نام قابل ذکر ہے یا لاہور میں ہاﺅس آف کامیار روکنی ہے۔ ’ہم نے شروع سے ہی روایتی کام پر فوکس کیے رکھا اور اب میں دیکھ رہا ہوں کہ ہر کوئی روایتی عروسی جوڑے بنانے کی طرف لوٹ آیا ہے۔‘
’جہاں تک ہمارے ملبوسات میں گوٹے کے استعمال کی بات ہے تو گوٹا ہمارا سگنیچر بھی ہے میں جنوبی پنجاب سے ہوں تو وہاں میں نے بچپن سے ہی گوٹے کا بہت زیادہ استعمال دیکھا ہے اس لیے میں نے بھی اپنے کام میں گوٹے کو ہمیشہ ترجیح دی ہے اب آپ دیکھیں کہ ہر دوسرا ڈیزائنر گوٹے کا استعمال کر رہا ہے۔‘
کامیار نے مزید کہا کہ کوئی بھی ٹرینڈ کیوں مقبول ہوتا ہے اور کیوں نہیں اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ پاکستان میں اس وقت کافی ڈیزائنرز برائیڈل ملبوسات بنا رہے ہیں لیکن منٹو کاظمی، فائزہ سمیع کے کام کی کیا ہی بات ہے اور زارا شاہجہان کا اپنا ایک انداز ہے ان کا جوڑا دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے زارا شاہجہان کا ہے۔

ہاتھ کا کام ہر دور میں مقبول رہا ہے اس کی الگ ہی بات ہوتی ہے (فوٹو: اردو نیوز)

آخر میں انہوں نے کہا کہ اس وقت دھاگے کا کام بھی چل رہا ہے اور اس وقت ہونے والا کام بہت سے کاموں کا مجموعہ ہے۔ باقی ہاتھ کا کام ہر دور میں مقبول رہا ہے اس کی الگ ہی بات ہوتی ہے۔
’ہمیں بعض اوقات کلائنٹ کا بجٹ دیکھ کر اس کے مطابق مشین سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ اب تو مشین سے ستارے اور شیشہ آسانی سے لگ جاتا ہے۔ جیسے ہر فیلڈ میں نئی ٹیکنالوجی کا استعمال ہوتا ہے اسی طرح سے فیشن کی دنیا میں بھی نئی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔'

شیئر: