Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز

چینی کمپنی کے اشتراک سے ویکسین کے کلینیکل ٹرائل کیے جائیں گے۔ فوٹو اے ایف پی
پاکستان کی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کے لیے کلینیکل ٹرائلز کے تیسرے مرحلے کی منظوری دے دی ہے۔ 
چینی کمپنی کے اشتراک سے کورونا وائرس کی ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز آغا خان میڈیکل یونیورسٹی کراچی، انڈس ہسپتال کراچی، شوکت خانم لاہور، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اور شفاء انٹرنیشنل اسلام آباد کے تحقیقی مراکز میں کیے جائیں گے۔ 
قومی ادارہ برائے صحت (این آئی ایچ) کے ترجمان کے مطابق 'پہلی بار پاکستان میں کسی بھی ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز کے فیز 3 کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میں چینی کمپنی اور اے جے ایم فارما  کے درمیان معاہدہ ہوا جس کی منظوری  ڈریپ نے دی دے ہے۔'
واضح رہے کہ پاکستان میں پہلی بار کسی بھی ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز کی منظوری دی گئی ہے۔ اس سے قبل ڈینگی کی ویکسین تیار کرنے کی منظوری دی گئی تھی تاہم اس ویکسین پر دیگر ممالک کی جانب سے تحفظات کے باعث ان ٹرائلز کی حتمی منظوری نہیں دی گئی تھی۔
انڈس ہسپتال کراچی کے ڈاکٹر عبدالباری نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کینسینو بائیو کمپنی کے ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز کے پہلے دو مرحلے چین کے شہر ووہان میں کیے گئے ہیں، ان نتائج کو دیکھتے ہوئے ڈریپ نے پاکستان میں ٹرائلز کی منظوری دے دی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں قومی ادارہ برائے صحت کے طے شدہ پروٹوکولز کے مطابق ٹرائلز سر انجام دیے جائیں گے۔' 
انہوں نے امید ظاہر کی کہ 'اگر ٹرائلز کامیاب ہو جاتے ہیں تو جلد ہی ویکسین کی تیاری شروع کر دی جائے گی۔'

پاکستان میں پہلی بار کسی ویکسین کے ٹرائل کے فیز 3 کا انعقاد کیا گیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرام نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'پاکستان میں اس وقت مختلف تحقیقاتی مراکز میں کورونا وائرس کی ویکیسن کے حوالے سے تحقیق کی جارہی ہے تاہم کلینیکل ٹرائلز کے تیسرے مرحلے کی منظوری ایک اہم پیش رفت ہے۔' 
ڈریپ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'چینی کمپنی کی تیار کردہ اس ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز کے پہلے مرحلے چین کے شہر ووہان میں کیے جا چکے ہیں جس میں پہلے 120 جبکہ بعدازاں 500 لوگوں پر مشتمل مختلف گروپس پر ٹرائلز کے گئے اور کافی مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔' 
انہوں نے دعوی کیا کہ 'اس ویکسین کے سائیڈ افیکٹس انسانوں میں انتہائی کم حد تک دیکھے گئے ہیں اس لیے اس کی منظوری دی گئی۔' 
قومی ادارہ برائے صحت میں میں ان ٹرائلز کی نگرانی میں شامل ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ کلینیکل ٹرائلز کے پروٹوکولز طے کیے جا رہے ہیں۔
’پانچ ہزار کے قریب رضا کاروں پر ٹرائلز کیے جائیں گے، سب سے پہلے کراچی میں رضاکاروں کے گروپس پر ٹرائلز کیے جائیں گے بعدازاں اسے ملک کے مختلف شہریوں پر آزمایا جائے گا۔' 
انہوں نے کہا کہ ’ان رضا کاروں میں شعبہ طب سے منسلک افراد پہلے سے ہی اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو عام شہریوں سے بھی اپیل کی جائے گی کہ وہ انسانی خدمت کے تحت اس میں شامل ہوں، تاہم ابھی اس حوالے سے آئندہ چند دنوں میں فیصلہ کر لیا جائے گا۔' 

ویکسین کے ٹرائلز چین کے شہر ووہان میں کیے جا چکے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

قومی ادارہ برائے صحت کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'ان ٹرائلز پر دو ماہ کا وقت لگ سکتا ہے جبکہ رضاکاروں کی سیفٹی کے لیے بھی ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں ڈریپ اور طب کے ماہرین شامل ہیں۔' 
قومی صحت کے ادارے کے ترجمان کے مطابق ویکسین بنانے والی چینی کمپنی چین، روس، چلی اور ارجنٹینا میں بھی ٹرائلز شروع کروا چکی ہے۔
’ویکیسین تیار کرنے کے لیے کلینیکل ٹرائلز سب سے اہم مرحلہ سمجھا جاتا ہے۔‘
شفا انٹرنشینل اسلام آباد کے امیونولوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ اطہر نیاز رانا نے اردو نیوز کو بتایا کہ ویکسین تیار کرنے کے پانچ سے چھ مرحلے ہوتے ہیں جس میں کلینیکل ٹرائلز کے مرحلے کو انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے۔
’کلینکل ٹرائلز سے پہلے پری کلینکل مرحلہ ہوتا ہے جس میں تحقیق کی جاتی ہے کہ وائرس کس نوعیت کا ہے اور پھر لیبارٹری ٹیسٹ وغیرہ کرنے کے بعد خاص کیمیکل تیار کیا جاتا ہے جس کی منظوری کے بعد کلینیکل ٹرائلز کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر اطہر نیاز رانا کے مطابق کلینیکل ٹرائل کے تیسرے مرحلے میں ویکسین کا بڑے پیمانے پر تجربہ کیا جاتا ہے۔
‘اس میں سیمپل سائز کو بڑھایا جاتا ہے اور ایسی جگہ جہاں وائرس کا پھیلاؤ بڑے پیمانے پر ہو، لوگوں میں ویکسین کا استعمال کیا جاتا ہے اور نتائج حاصل کیے جاتے ہیں۔ لیکن کورونا وائرس چونکہ دنیا بھر میں پھیل چکا ہے اس لیے یہ مرحلہ کہیں بھی سر انجام دیا جاسکتا ہے۔'

پاکستان میں کورونا کیسز میں کمی کے لاک ڈاؤن مکمل ختم کر دیا گیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

ڈاکٹر اطہر نیاز کا کہنا تھا کہ کلینیکل ٹرائل کے چوتھے مرحلے میں ان تمام لوگوں کا جائزہ لیا جاتا ہے جن پر ویکسین استعمال کی گئی ہو، اس مرحلے میں دیکھا جاتا ہے کہ جن لوگوں پر ویکسین کا استعمال کیا گیا ہے وائرس کے خاتمے کے علاوہ ان کے صحت پر دیگر کیا اثرات رونما ہوئے ہیں۔
’عمومی طور پر اس مرحلے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے لیکن عالمی ایمرجنسی میں اس مرحلے کو کم وقت دیا جاسکتا ہے۔ ویکسین کی تیاری میں کلینکل ٹرائلز کے مرحلے کے بعد ’اپروول سٹیج‘ ہوتی ہے جس میں تمام نتائج کی روشنی میں ویکسین کی تیاری کی منظوری دی جاتی ہے اور پھر کوالٹی کنٹرول کے بعد ویکسین بنانے کا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے۔‘

شیئر: