نیوزی لینڈ کی ایک مسجد میں 51 مسلمانوں کو قتل کرنے والے آسٹریلوی سفید فام قوم پرست کے بارے میں عدالت کو بتایا گیا کہ برینٹن ٹیرنٹ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قتل کرنا چاہتا تھا۔
آسٹریلوی سفید فام قوم پرست برینٹن ٹیرنٹ کو سزا سنانے کے لیے عدالت میں چار دن کی سماعت شروع ہو چکی ہے۔ اس موقع پر سوگوار خاندانوں کے اراکین اور زخمی بچ جانے والے افراد بھی موجود تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عدالت نے کہا کہ جب وہ سوشل میڈیا پر لائیو حملے کی ویڈیو نشر کر رہا تھا تو کس طرح بھاری ہتھیاروں سے لیس برینٹن ٹیرنٹ نے مردوں، خواتین، اور بچوں پر فائرنگ کی اور اس نے لوگوں کی درخواستوں کو نظر انداز کیا۔
مزید پڑھیں
-
امریکہ میں مسجد کو آگ لگانے کی کوشش،سانحہ کرائسٹ چرچ سے تعلقNode ID: 411031
-
نیوزی لینڈ: کورونا کیسز کی تعداد میں اضافہNode ID: 499111
-
نیوزی لینڈ میں انتخابات ملتویNode ID: 499226
استغاثہ برنیبی ہاز نے عدالت کو بتایا کہ حملے کے وقت جب ایک بچہ اپنے والد کی ٹانگ سے لپٹ گیا تو برینٹن ٹیرنٹ نے اس کو گولی ماری۔
گذشتہ برس مارچ میں کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر حملوں میں ٹیرنٹ نے 51 افراد کو قتل، 40 کو قتل کی کوشش اور ایک دہشت گرد حملے کا جرم قبول کیا ہے۔
وکلا کو توقع ہے کہ نیوزی لینڈ میں 29 سالہ برینٹن ٹیرنٹ پہلا شخص ہوگا جس کو پیرول کے بغیر عمر قید کی سزا ہوگی۔
برینٹن ٹیرنٹ کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ایش برٹن میں تیسری مسجد پر حملے کے لیے جا رہا تھا۔ ایش برٹن اور کرائسٹ چرچ کے درمیان ایک گھنٹے کا فاصلہ ہے۔
برینٹن عدالت میں خاموش کھڑے تھے، کبھی کبھار کمرہ عدالت میں ادھر ادھر دیکھ لیتے تھے۔
استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ ملزم نے پولیس کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ ان کا دونوں مساجد میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نشانہ بنانے کا ارادہ تھا۔
عرب نیوز کے مطابق ایک عراقی خاتون، جن کی شناخت کی ظاہر کی گئی، تفصیل بتاتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں، انہوں نے اپنے بیٹے کی لاش کی وصولی کے بارے میں بتایا ہ اس روز مشرق وسطیٰ میں ماؤں کا عالمی دن منایا جا رہا تھا اور ان کی اپنی سالگرہ بھی اسی دن تھی۔
ایک اور ماں نے بتایا کہ وہ اپنے ایک معذور بچے کی والد کے بغیر پرورش کی مشکلات کے بارے میں آگاہ کیا۔
ایک عینی شاہد تمیل اتاکوکوگو نے مسجد النور میں پیش آنے والے واقعے لے بارے میں بتایا کہ ’مسلح شخص اور میں نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ‘میں مسجد میں لاشوں نے نیچے لیٹ گیا، یہ سوچ رہا تھا کہ میں مرنے لگا ہوں۔۔۔ میں اپنے اوپر پڑے شخص کا خون اپنے چہرے اور گردن پر بہتا ہوا محسوس کر سکتا تھا۔ میں کوئی حرکت یا آواز نہیں نکال سکتا تھا، ورنہ مسلح شخص مجھے بھی مار دیتا۔‘
پیر کو کمرہ عدالت میں تمیل اتاکوکوگو کی نظریں حملہ آور سے ایک بار دوبارہ ٹکرائیں لیکن ملزم نے دوبارہ ان کی طرف نہیں دیکھا۔