Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نواز شریف اِن ایکشن

تحریک انصاف نے تابڑ توڑ پریس کانفرنسز کر کے ڈیمج کنڑول کی کوششیں تیز کر دی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
جس دن نیب نے مریم نواز کو طلب کیا اور شریف خاندان نے یہ طے کر لیا کہ مریم نیب کے سامنے پیش ہوں گی، اسی روز  سب کا ماتھا ٹھنک گیا تھا کہ پس پردہ کاوشوں کے کچھ ثمرات جلد متوقع ہیں۔
مریم نواز کا نیب کے باہر پاور شو کے فوری بعد نواز شریف کی جانب سے سیاسی رابطوں کی بحالی نے پژمردہ سی ن لیگ میں تازہ روح پھونک دی ہے۔ جواباً تحریک انصاف نے بھی تابڑ توڑ پریس کانفرنسز کر کے ڈیمج کنڑول کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
حکومت کرنا ایسے ہی مشکل نہیں ہوا کرتا۔ اگر خود کوئی متنازع کام کریں تو جواب دیں اور اگر کوئی اور بھی کرے تو بھی جواب دیں کیونکہ حکومت کا کام غیر قانونی کاموں کو روکنا بھی ہے۔ ’یا تو آپ نااہل تھے یا ملے ہوئے تھے۔ ‘یہ جملہ اوپر سے نیچے تک حکومت کی ہر سطح کے بارے میں عام سننے کو ملتا ہے۔

 

اب نواز شریف کے معاملے کو ہی لیجیے۔ ان کو سزا یافتہ قیدی کے طور پر اپنے دن پورے کرنا تھے۔ سزا یافتہ قیدی عدالت کی نہیں محمکہ داخلہ کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ نیب اگرچہ وفاقی ادارہ ہے مگر وفاق میں جیل نہ ہونے کی وجہ سے قیدی متعلقہ صوبائی جیلوں میں قید ہوتے ہیں۔ میاں صاحب اس لیے سزا پاکر اڈیالہ جیل پہنچے مگر محکمہ داخلہ پنجاب نے اپنے جائز اختیارات کا استعمال کرتے ان کو کوٹ لکھپت لاہور میں بھیج دیا۔
اب یہاں معاملہ شروع ہو گیا میاں صاحب کی بیماری کا۔ قیدی اگر بیمار ہو تو جیل میں علاج ہوتا ہے اور اگر زیادہ طبیعت بگڑ جائے تو سروسز ہسپتال میں۔
قیدی کی صحت کی ذمہ داری اب بن گئی صوبائی محکمہ صحت کی۔ میاں صاحب بھی قانونی طور پر سروسز ہسپتال پہنچ گئے۔ میاں صاحب کی پارٹی مگر چاہتی تھی بیرون ملک علاج اور قانون میں اس کی کوئی گنجائش تھی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ قیدی کو کچھ وقت کے لیے پے رول پہ چھوڑا جاتا ہے اور پھر واپس جیل یا ہسپتال۔
عام حالات میں یہ معاملہ یہیں ختم ہو جاتا اگر حکومت کے ماتحت ہسپتال اور ڈاکٹر یہ تعین نہ کرتے کہ ان کی بیماری اتنی سنگین ہے کہ ان کو چھوڑنا ضروری ہے۔ عدالت کا فیصلہ بھی حکومتی رپورٹوں پرانحصار کر رہا تھا اور بیرون ملک جانے کی اجازت ای سی ایل قانون کے تحت وفاقی کابینہ کی منظوری کی محتاج  ہوتی ہے۔ کچھ گارنٹی پر لے دے کے بعد وفاقی کابینہ نے منظوری دی اور میاں صاحب لندن پہنچ گئے۔ اب وہاں سے علاج کی خبر تو نہیں آئی مگر ان کی سماجی اور سیاسی سرگرمیوں کی خبریں متواتر آرہی ہیں۔

لندن سے علاج کی خبر تو نہیں آئی مگر نواز شریف کی سماجی اور سیاسی سرگرمیوں کی خبریں متواتر آرہی ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)

اس قانونی مجبوری کےعلاوہ کہ قیدی کی سزا مکمل ہو، حکومت کے لیے یہ ایک سیاسی دھچکا بھی ہے۔ جب جب میاں صاحب کی لندن سے تصویر آتی ہے تب تب پی ٹی آئی کے احتساب کے نعرے کو ایک جھٹکا ضرور لگتا ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ میاں صاحب کی واپسی اور دوبارہ مقدمات میں پیشیوں، ٹی وی کوریج، بیانات اور سیاسی سرگرمیوں سے حکومت کے لیے مسائل کم نہیں ہوں گے بلکہ بڑھیں گے۔
یہ سوچ حکومت میں اس خاموش حلقے کی ہے جو یہ چاہتا ہے کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز منظر عام سے غائب ہوں اور حکومت سکون سے اپنا وقت گزارے۔
حکومت کے اپنے مشیر احتساب کے منہ سے محکمہ زراعت کا ذکر البتہ حکومت کے اندر بھی نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے مختلف سوچ کی موجودگی کا عکاس ہے۔
نیب کے کیس بھگتنے کا ردعمل متحرک سیاسی سرگرمی بھی ہے جس کا مظاہرہ مریم نواز نے حالیہ نیب میں پیشی پر پیش کیا اور آئندہ بھی ایسے ہی مظاہروں کی توقع ہے۔ اس لیے حکومت کے سنجیدہ حلقے یہ نہیں چاہیں گے کہ آئندہ پیشی پر ن لیگ کے کارکنوں اور مریم نواز کی مڈھ بھیڑ کو لیڈ نوازشریف کر رہے ہوں۔

مشیر احتساب کے منہ سے محکمہ زراعت کا ذکر حکومت کے اندر بھی نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے مختلف سوچ کی موجودگی کا عکاس ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

اس لیے بظاہر مشورہ یہی لگتا ہے کہ میاں نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے بیانیہ بنایا جائے اور اس سے ن لیگ کو مفرور اور مجرم پیش کیا جائے۔
کچھ وزرا کی طرف سے تحقیقات کامطالبہ ونڈو ڈریسنگ کی کوشش تو ہے مگر سوچنے والے یہ سوال ضرور کریں گے کہ کوٹ لکھپت جیل کا قیدی آخر کیسے حکومت کی ناک کے نیچے سے نکل کر لندن کی سڑکوں پر چشمہ لگا کر اگر چہل قدمی کر رہا ہے۔ یہ یا تو حکومت کی نا اہلی ہے اور یا پھر۔۔۔۔

شیئر: