غیرضروری اشیاء کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔ (فوٹو عرب نیوز)
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے باعث جہاں عالمی معیشت کو سخت دھچکا لگا ہے وہیں سعودی عرب کی معیشت کے ساتھ بھی اس وبائی مرض نے کوئی رعایت نہیں برتی۔
عرب نیوز کے ایک سروے کے مطابق کورونا وائرس کے اثرات سے نمٹنے کے بعد سعودی معاشرے میں سوچ سمجھ کر خرچ کرنے کی روایت پیدا ہو گئی ہے۔ اس روایت سے قومی معیشت طویل مدت تک فائدہ اٹھائے گی۔
سعودی معاشی ایسوسی ایشن کے ذمہ دار ڈاکٹر عبد اللہ المغلوط نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم کورونا وائرس کے نتیجے میں زبردست معاشرتی تبدیلیاں دیکھیں گے۔ ان میں سب سے اہم تبدیلی صارفین کے رویے میں ہوگی۔
انہوں نے کہا "معاشی کساد بازاری کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس سے صارفین کے طرز عمل پر اثر پڑے گا جو بدلے میں تمام معاشی تغیرات کو سختی سے متاثر کرے گا۔"
سعودی عرب میں صارفین کے طرز عمل میں رونما ہونے والی حیرت انگیز تبدیلی سے ہر ایک واقف ہے کیونکہ زیادہ تر آبادی ڈیجیٹل مارکیٹ میں داخل ہوگئی ہے۔
اس مارکیٹ میں سب سے زیادہ فروخت کی شرح صحت کی نگہداشت کے ادارے ، ریستوراں اور غذائی اجناس مہیا کرنے والی کمپنیوں میں ہے۔
ڈاکٹر المغلوط نے مزید کہا "خریدارعقل مند بن گئے ہیں جو صحت سے متعلق اشیاء پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔
غیر ضروری اشیاء کی مارکیٹوں میں قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہوگی اور لوگوں کو پتا چل جائے گا کہ بہت سارے سامان اور خدمات کی ضرورت میں کمی آئی ہے۔
کورونا کا بحران ختم ہونے کے بعد مارکیٹ کی صورتحال میں بہتری آئے گی ۔ "تب خوشحالی کی واپسی ہوگی اور عوام اچھی اور مستحکم زندگی سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔"
صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والی سعودی نرس وفا الشماری نے عرب نیوز کو بتایا کورونا وائرس کے دوران ایک تجربہ تو یہ ہوا ہے کہ خریداری کی بہت سی عادات میں تبدیلی آئی ہے اور پیسہ بچانے کی اہمیت سے آگاہی ملی ہے۔
"ہم ان چیزوں پر بہت زیادہ فضول خرچی کرتے تھے جن کی ہمیں واقعتا ضرورت نہیں ہوتی۔"
میں اپنے دو بچوں کے ساتھ خریداری کے لئے ماہانہ راشن خریدنے جاتی تھا۔ بچوں نے جو کھانے پینے کی اشیاء اور کھلونوں کا انتخاب کیا تو بل میں آدھی رقم ان اشیاء کی ہوتی تھی جو کیش کاونٹر پر ادا کرنا پڑتی۔"
ایسی چیزیں خرید لی جاتی تھیں جو فہرست میں شامل نہ ہوتیں، زیادہ تر خریداروں میں بغیر سوچے سمجھے خریدنے کا عام رواج تھا۔
وفا الشماری نے کہا کہ کورونا وائرس نے ہمیں اہل خانہ کی حفظان صحت سے متعلق زیادہ محتاط کردیا ہے۔
اب گھر کی صفائی کے لئے سینیٹائزر، چہرے کے ماسک، میڈیکل دستانے اور یہاں تک کہ بلیچ خریدنے کے لئے ماہانہ رقم مختص کرنا ہوتی ہے اور ان اشیاء کی ترجیحات نے ہمیں دانشمندی کے ساتھ رقم خرچ کرنا سکھا دیا ہے۔
ایک ریٹائرڈ پولیس آفیسر اور چھ بچوں کے والد احمد الزہرانی نے عرب نیوز کو بتایا "ملک میں وبائی امراض کی وجہ سے سخت تجربے کے بعد لوگوں نے اہم اقتصادی سبق سیکھا ہے۔ بہت سارے لوگوں نے مالی پریشانیوں سے بچنے کے لئے اخراجات کے منصوبوں پر عمل کرنا شروع کردیا ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ان کی بنیادی ضرورت اپنے اہل خانہ کی صحت اور اس کی حفاظت ہے۔
احمد الزہرانی کا کہنا ہےکہ اچھی صحت کے مقابلے میں عیش و آرام کی زندگی کچھ نہیں۔ ہمیں ہر طرح کی صورتحال کے لیے تیار رہنا چاہئے اور خود کو بیماریوں سمیت حادثات سے بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔
ایک سروے کے مطابق مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں 69 فیصد صارفین کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے اب طویل عرصہ تک ان کے رہنے کا طریقہ بدل جائے گا۔
سروے کے مطابق 68 فیصد لوگوں نے کہا کہ ان کی اقدار بدلی ہیں اور اب وہ زندگی کو مختلف انداز سے دیکھتے ہیں۔
ای وائی فیوچر کنزیومر انڈیکس کے تعاون سے ایک سروے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے 1،018 صارفین سے پوچھ گچھ کی گئی جس میں 84 فیصد صارفین نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے اپنی خریداری کی مصنوعات کو تبدیل کردیا ہے ۔
اب پیسے کی قدر پر زیادہ توجہ اور مقامی طور پر تیار کردہ مصنوعات کے استعمال کی وابستگی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ڈاکٹر المغلوط نے عرب نیوز کو بتایا ہے کہ سعودی حکومت اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لئے پہلے ہی متعدد اہم فیصلے لے چکی ہے۔
حکومت نے نجی شعبے کی حمایت کی اور ملازمین کی تقریبا 60 فیصد تنخواہوں کی ادائیگی کرکے اور اینٹی کورونا وائرس منصوبوں کے لئے خصوصی بجٹ تیار کیا۔ ملازمین کی خدمات ختم کرنے کے خلاف نجی شعبے کو خبردار کیا۔
سعودی معیشت کو مقامی اورعالمی دونوں سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل ہے۔ یہ اعتماد سعودی ویژن 2030 کی شقوں کی تکمیل میں معاشی عمل کو جاری رکھنے اور بلا تاخیر میگا پروجیکٹس کے ساتھ مزید غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کاری کو ترغیب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔