Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوشل میڈیا رولز کا نیا مسودہ تیار

کچھ سوشل رائٹس تنظیموں نے حکومت کی جانب سے مسودے کو خفیہ رکھنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے (فوٹو:ٹوئٹر)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا کے نظرثانی شدہ رولز کے مسودے کو حتمی شکل دے دی ہے جس میں نیشنل کوآرڈینیٹر کا عہدہ ختم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
وفاقی کابینہ کے اہم رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا ہے کہ سوشل میڈیا رولز پر نظر ثانی کے لیے چیئرمین پی ٹی اے عامر عظیم باجوہ کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔
'کمیٹی نے سفارشات تیار کرکے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بھجوا دی ہیں۔'
انہوں نے بتایا کہ اس کمیٹی میں وفاقی وزیر شیریں مزاری، بیرسٹر علی ظفر اور وزیر اعظم کے فوکل پرسن ڈاکٹر ارسلان خالد شامل تھے۔
وفاقی وزیر کے مطابق کمیٹی نے فیس بک، یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا کمپنیوں سے مشاورت کی۔ اس حوالے سے ڈیجیٹل اور سوشل رائٹس کے لیے کام کرنے والے افراد اور تنظیموں سے بھی تجاویز مانگی گئی تھیں۔
کمیٹی نے سوشل میڈیا رولز میں کچھ ترامیم تجویز کی ہیں جس کے تحت سوشل میڈیا کی نگرانی کے لیے اتھارٹی قائم کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے جبکہ اس اتھارٹی کے کام یعنی کسی بھی مواد کو بلاک کرنے کا فیصلہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں پی ٹی اے متنازع اور غیرقانونی مواد ہٹانے کے لیے کمپنیوں سے رابطہ کرے گا۔ سوشل میڈیا کمپنیوں کی جانب سے پاکستان میں رجسٹریشن کے حوالے تحفظات کے باوجود انھیں رجسٹریشن کے لیے چھ ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔
وزیر اعظم کے سوشل میڈیا کے لیے فوکل پرسن ڈاکٹر ارسلان خالد نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں اس بات کی تصدیق کی کہ تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت مکمل کرلی گئی ہے اور رولز کا حتمی مسودہ وزارت آئی ٹی کو بھجوا دیا ہے۔
’اب وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور وزارت قانون اس مسودے کا جائرہ لیں گی۔‘

وفاقی وزیر کے مطابق کمیٹی نے فیس بک، یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا کمپنیوں سے مشاورت کی (فوٹو:روئٹرز)

انھوں نے مسودے کے مندرجات کے بارے میں تفصیلات بتانے سےگریز کیا اور کہا کہ 'یہ ابھی بھی ایک مسودہ ہی ہے۔ جب حتمی فیصلہ ہوگا تو مندرجات بھی سامنے آ جائیں گے۔ ہم نے سب سے مشاورت کی ہے اور وہی فیصلہ کیا ہے جو پاکستان کے لیے بہتر تھا۔'

سوشل میڈیا صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا ردعمل

سوشل میڈیا صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنے والی بیشتر تنظیموں نے حکومت کی اس کمیٹی کا بائیکاٹ کیا تھا اور کچھ نے تو ان رولز کو اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کر رکھا ہے۔
احتجاج کرنے والی تنظیموں نے حکومت کی جانب سے اس مسودے کو خفیہ رکھنے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب تک جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق سوشل میڈیا رولز میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لائی گئی۔ ان تنظیموں نے رولز کی حتمی منظوری سے قبل رولز کا مسودہ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور ایک غیر سرکاری تنظیم 'بولو بھی' کی ڈائریکٹر فریحہ عزیز نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ 'اب تک سامنے آنے والی تفصیلات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ نیشنل کوآرڈینیٹر کا جو دفتر بنایا گیا تھا اس کا قانون میں کوئی تصور ہی نہیں تھا اور رولز میں اس کو اختیارات دینا غیر آئینی تھا۔'
ان کے بقول 'اس کے خاتمے کی وجہ یہ ہے کہ عدالتوں میں حکومت کو دشواری پیش نہ آئے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو ابھی بھی رجسٹریشن کا ہی کہا گیا ہے۔'
فریحہ عزیز نے بتایا کہ 'اس حوالے سے ہونے والے مشاورتی عمل کے باوجود 100 سے زائد افراد اور تنظیموں نے کابینہ کی جانب سے ان رولز کی منظوری کے طریقہ کار اور اس میں دیے گئے اختیارات کو غیر آئینی سمجھتے ہوئے بائیکاٹ کیا تھا۔' 
انہوں نےکہا کہ 'اب اگر نظر ثانی شدہ رولز کا مسودہ تیار کر ہی لیا گیا ہے تو کابینہ کی جانب سے دوبارہ منظوری سے پہلے اس مسودے کو عوامی ردعمل کے لیے پبلک کیا جائے۔ ان کی قانونی حیثیت کے حوالے سے حکومت کی جانب سے وضاحت آنی چاہیے۔ رولز کا مطلب اختیارات کو قانون کے تابع کرنا ہے ایسا نہ ہو کہ ان رولز کے ذریعے پی ٹی اے کو وہ اختیارات بھی دے دیے جائیں جن کا قانون میں کوئی تصور ہی موجود نہ ہو۔'
'میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی' کی شریک بانی صدف خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'ابتدائی طور پر ان رولز کے حوالے سے دو طرح کے تحفطات تھے۔ پہلی وجہ تو ان رولز کی منظوری کا طریقہ کار تھا جو غلط تھا، دوسری وجہ جن قوانین کے تحت یہ رولز متعارف کرائے گئے تھے اور ان میں جو آمرانہ اختیارات دیے گئے تھے وہ ان قوانین سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔'  

ڈیجیٹل اور سوشل رائٹس کے لیے کام کرنے والے افراد اور تنظیموں سے بھی تجاویز مانگی گئی تھیں (فوٹو:اے ایف پی)

انھوں نے کہا کہ 'ہم نے بھی ای میل پر اپنی سفارشات بھجوائی تھیں۔ حتمی مسودہ تو سامنے نہیں آ رہا تاہم اب تک کی معلومات کے مطابق صرف ایک مثبت چیز نظر آ رہی ہے کہ نیشنل کوآرڈینیٹر کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے۔‘
صدف خان کے بقول 'اس حوالے سے یہ بھی لازم ہے کہ کوآرڈینیٹر کے اختیارات پی ٹی اے کو نہ دے دیے جائیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا کمپنیوں کی مقامی رجسٹریشن کے حوالے سے خدشات بھی دور نہیں کیے گئے۔‘
ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن کی بانی نگہت داد نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ 'حکومتی کمیٹی کی جانب سے تجاویز مانگی گئی تھیں اور ہم نے ایک تفصیلی ڈرافٹ ان کو بھیجا تھا جس میں ہم نے اپنی طرف سے سفارشات شامل کی تھیں لیکن جب تک حتمی مسودہ سامنے نہیں آتا ہمیں نہیں معلوم کہ ہماری کون سی سفارشات مانی گئی ہیں اورکن پر غور نہیں ہوا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سمجھ نہیں آتی کہ حکومت اس مسودے کو خفیہ کیوں رکھ رہی ہے۔ اگر کمیٹی نے مسودہ تیار کرلیا ہے اور وہ سوشل میڈیا کمپنیز کے ساتھ بات چیت بھی کرتے رہے ہیں تو انھیں صارفین پر بھی اعتماد کرنا چاہیے۔‘

سوشل میڈیا رولز کیا تھے؟

28 جنوری کو وفاقی حکومت نے ملک میں سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے رولز کی منظوری دی تھی جس کا اعلان 12 فروری کو کیا گیا تھا۔
ان رولز کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں کو کسی تفتیشی ادارے کی جانب سے کوئی معلومات یا ڈیٹا مانگنے پر فراہم کرنے کا پابند بنایا گیا تھا۔ کوئی معلومات مہیا نہ کرنے کی صورت میں ان پر 50 کروڑ روپے جرمانہ عائد کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔

رولز میں سوشل میڈیا کمپنیوں کو آئندہ تین ماہ کے عرصے میں اسلام آباد میں رجسٹرڈ آفس قائم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ (فوٹو: روئٹرز)

اس حوالے سے جو معلومات فراہم کی جاسکتی ہیں ان میں صارف کی معلومات، ٹریفک ڈیٹا یا مواد کی تفصیلات شامل ہیں۔
رولزکے تحت اگر کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو تحریری یا الیکٹرانک طریقے سے ’غیر قانونی مواد‘ کی نشاندہی کی جائے گی تو وہ اسے 24 گھنٹے جبکہ ہنگامی صورت حال میں 6 گھنٹوں میں ہٹانے کے پابند تھے۔
ان کمپنیوں کو آئندہ تین ماہ کے عرصے میں اسلام آباد میں رجسٹرڈ آفس قائم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
اس کے ساتھ ان کمپنیوں کو 3 ماہ کے عرصے میں پاکستان میں متعلقہ حکام سے تعاون کے لیے اپنا فوکل پرسن تعینات کرنا اور آن لائن مواد کو محفوظ اور ریکارڈ کرنے کے لیے 12 ماہ میں ایک یا زائد ڈیٹا بیس سرورز قائم کرنے کا بھی کہا گیا تھا۔

شیئر: