8 جنوری کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے اپنی ویب سائٹ پر ایک مشاورتی پیپر اپ لوڈ کیا۔ اس پیپر میں ویب ٹی وی اور او ٹی ٹی (اوور دی ٹاپ ٹی وی) کے مواد کو کسی ضابطے کے تحت لانے کے بارے میں ابتدائی معلومات، تجاویز اور ان چینلز کے حوالے سے مجوزہ شرائط بتائی گئی ہیں۔
اسی پیپر میں فریقین سے 14 فروری تک تجاویز بھی مانگی گئی ہیں۔ پیمرا کے مطابق نہ صرف مقامی فریقین بلکہ نیٹ فلکس سمیت کئی بین الاقوامی کمپنیوں کی جانب سے بھی تجاویز سامنے آ رہی ہیں۔
مزید پڑھیں
-
فواد چوہدری نے اینکر کو تھپڑ کیوں مارا؟Node ID: 451526
-
’پیمرا کا وفاقی وزیر فیصل واوڈا کو نوٹس کہاں ہے؟‘Node ID: 453401
-
پیمرا، عمران سیریز اور دیگرNode ID: 454671
پیمرا نے تجویز کیا ہے کہ اس کے لیے سب سے پہلے باقاعدہ کمپنی سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے ساتھ رجسٹر کرانا ہو گی۔ اس کمپنی کا ابتدائی سرمایہ 30 لاکھ روپے تک ہونا چاہیے جبکہ کمپنی کے پاس اپنا براڈکاسٹ سیٹ اپ بھی موجود ہونا چاہیے۔
اس حوالے سے بھی دو کیٹگریرز ہیں۔ ان میں ایک ویب ٹی وی ہے جبکہ دوسری کیٹگری یوٹیوب یا کسی بھی ویب سائٹ کے ذریعے ویڈیو مواد نشر کرنے والوں کی ہے۔
جو کمپنی بھی لائسنس کے لیے درخواست دے گی اسے ناقابل واپسی 50 ہزار روپے پروسیسنگ فیس ادا کرنا ہو گی جبکہ او ٹی ٹی لائسنس کے لیے 50 لاکھ روپے، نیوز ویب ٹی وی کے لیے ایک کروڑ روپے جبکہ نیوز کے بغیر ویب ٹی وی کے لیے بھی 50 لاکھ روپے فیس ادا کرنا ہو گی جبکہ سالانہ واجبات اس کے علاوہ ہیں۔
اردو نیوز نے اس حوالے سے پیمرا کے ڈی جی لائسنسنگ وکیل خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’پیمرا کسی فرد کو لائسنس دیتا ہے نہ ہی اس کو ریگولیٹ کر سکتا ہے۔ ہم کمپنی کو لائسنس دیں گے۔ میرے خیال میں ذاتی یوٹیوب چینلز چاہے وہ کسی بھی نوعیت کے ہوں شاید وہ اس سکوپ میں نہیں آئیں گے۔ صرف وہ یوٹیوب اور ویب چینلز اس سکوپ میں آئیں گے جو روزانہ 8 سے 10 گھنٹے کا تازہ مواد اور باقی 14 سے 16 گھنٹے نشر مقرر چلاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ پیمرا نے کسی کے کہنے پر یہ اقدام اٹھایا ہے ان کا الزام قبل از وقت ہے۔ ابھی مشاورت ہو رہی ہے، لوگوں کا ردعمل اور تجاویز آ رہی ہیں۔ ہم سوشل میڈیا کو ریگولیٹ نہیں کر سکتے نہ ہی ہمارا یہ کام ہے۔‘
پیمرا کے پیپر میں مختلف فریقین کی جانب سے ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ریگولیٹرز اس وجہ سے متحرک ہوئے ہیں کہ ان چینلز نے روایتی میڈیا کی مارکیٹ کو شدید متاثر کیا ہے۔ ان روایتی میڈیا ہاؤسز کی آن لائن ویب سائٹس اور مواد پر ٹریفک میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ میڈیا ہاؤسز تو ضابطہ اخلاق کے پابند اور لائسنس یافتہ ہیں جبکہ یہ چینلز کسی بھی ضابطے کی پابندی کے بغیر مارکیٹ سے اشتہارات بھی لے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں گذشتہ ایک سال کے دوران روایتی میڈیا ہاؤسز معاشی لحاظ سے زوال پذیر ہوئے ہیں اور ان اداروں میں کئی کئی ماہ سے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی جا رہی۔
کچھ چینلز نے کئی ایک اینکرز، رپورٹرز، کیمرہ پرسنز اور دیگر سٹاف کو نوکریوں سے بھی نکال دیا ہے۔ بعض اینکرز کی نوکری سے نکلنے کی وجہ غیر اعلانیہ سینسر شپ اور حکومتی و مقتدر حلقوں کی جانب سے دباؤ کو بھی قرار دیا جاتا ہے۔
اس صورت حال میں پاکستان میں یوٹیوب چینلز کے رجحان میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اینکرز اور رپورٹرز نے اپنی مالی ضروریات پوری کرنے اور میڈیا مارکیٹ میں موجود رہنے کے لیے اپنے یوٹیوب چینلز کا سہارا لیا ہے۔ انٹرنیٹ صارفین نے ان کے چینلز کو سبسکرائب کر کے ان کی مشکل بھی کافی حد تک حل کر دی ہے۔
ان یوٹیوب چینلز کا مواد روایتی میڈیا کی نسبت کسی بھی ادارتی پالیسی سے آزاد، زیادہ کھلا ڈھلا اور کسی بھی سرکاری ضابطے کا پابند نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے حکومت یہ سمجھتی ہے کہ انہیں ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے اینکر و صحافی طلعت حسین نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’پیمرا کی نیت بڑی واضح ہے۔ انٹرنیٹ ایک بہت بڑا انٹرنیشنل ہائی وے ہے۔ پیمرا ہیلمٹ پہن کر، اپنی چھوٹی سی موٹرسائیکل پر بیٹھ کر اس انٹرنیشنل ہائی وے پر پولیس مین بننے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دنیا میں کوئی بھی کہیں بھی بیٹھ کر پوسٹ کر سکتا ہے۔ کیا پیمرا پھر انٹرنیٹ یا یوٹیوب پاکستان میں بند کروائے گا؟ یا پھر یو آر ایل کے ذریعے بندش کرے گا؟ اس طرح تو ہزاروں چینلز بند کرنا پڑیں گے۔‘
طلعت حسین نے کہا کہ ’بنیادی طور پر اس ساری حرکت کا مقصد ان جگہوں کو بند کرنا ہے جہاں سے کچھ آواز اٹھ رہی ہے اور سوشل میڈیا پر موجودہ حکومت کی جو دھلائی ہوتی ہے وہ نہ ہو لیکن یہ بہت ہی کمزور آئیڈیا ہے۔‘
وفاقی وزیر فواد چودھری اور اینکر مبشر لقمان کے درمیان جھگڑے کی وجہ بھی یو ٹیوب چینل پر اینکر کی جانب سے عائد کیے گئے الزامات ہی تھے۔ اس کے بعد فواد چودھری نے قومی اسمبلی کے فلور پر ان چینلز کو ریگولیٹ کرنے اور ان کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی پر ایف بی آر کو حرکت میں آنے کی تجویز دی تھی۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں