Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں کس طرح کی ویڈیو گیمز بن رہی ہیں؟

ویڈیو گیمز کی صنعت دنیا کی تیزی سے پھیلتی ہوئی صنعت بن چکی ہے اور گزشتہ چند سالوں کے اندر پاکستان نے بھی اس صنعت میں خاصی ترقی کی ہے۔
امریکی ادارہ برائے شماریات کے مطابق 2020 میں دنیا بھر میں ویڈیو گیمز کی صنعت ڈیڑھ سو ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان اعدادو شمار میں ابھی انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سافٹ وئیر انڈسٹری شامل نہیں۔ کیونکہ ویڈیو گیمز نے الگ سے اپنی شناخت منوا لی ہے۔
پاکستان میں کس معیار کے ویڈیو گیمز بن رہی ہیں اس حوالے سے اردو نیوز نے پاکستان کے ایک بڑے گیمنگ اسٹوڈیو ’دی گیم سٹارم‘ کے مالک راحیل اقبال کا انٹر ویو کیا ہے۔ راحیل اقبال کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ گذشتہ ایک دہائی سے ویڈیو گیمز بنا رہے ہیں۔
راحیل اقبال یہ سمجھتے ہیں پاکستان اب عالمی معیار کے ویڈیو گیمز بنا ریا ہے۔ 'میں بنیادی طور پر سافٹ ویئر انجینئیر تھا 2010 میں جب پہلی بار نوکری سے ہٹ کے اپنا کاروبار کرنے کا جنون پیدا ہوا تو جو کام مل رہا تھا اس میں ایک ویڈیو گیم بنانے کا بھی آرڈر ملا۔ اینڈرائیڈ سافٹ وئیر ان دنوں نیا نیا تھا اور اس آپریٹنگ سسٹم کے لیے ویڈیو گیم بنانا پاکستان میں تقریباً ناممکن تھا۔ کیونکہ ایسا کوئی پلیٹ فارم ہی موجود نہیں تھا۔‘
راحیل اقبال بتاتے ہیں کہ اس وقت انہوں نے پاکستان میں پہلا گیمنگ انجن تخلیق کیا جو اب بھی ان کے پاس موجود ہے اور اس پر انہوں نے اینڈرائیڈ گیم تخلیق کی۔ 'وہ ایک ایسا دور تھا جب جی وی ایس پاکستان کی پہلی گیمنگ کمپنی کہلاتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی دو چار اور کمپنیاں بھی بنیں جنہیں سلی کون ویلی نے خرید لیا۔ ہم اس وقت نئے تھے لیکن اب پاکستان کی ایسی ٹاپ اکمپنیوں میں شمار ہوتے ہیں جو ویڈیو گیمز بنا رہی ہیں۔'
ایک سوال کے جواب میں کہ ٹاپ کمپنیوں کے پاکستان میں ہونے کے باجود ایسی ویڈیو گیمز بظاہر سامنے کیوں نہیں آرہی جس کے لیے کہا جا سکے کہ پاکستانی پراڈکٹ ہے؟ راحیل اقبال نے بتایا کہ یہ اتنی سادہ بات نہیں ہے۔
'گیمنگ انڈسٹری ذرا مختلف طرح سے کام کرتی ہے۔ اس میں ملک سے زیادہ برانڈ اہم ہوتے۔ کوالٹی کی گیم بنانا تو کوئی مشکل کام نہیں البتہ برانڈ بنانا اصل کام ہے۔ جتنے بھی بڑے برانڈ اس وقت دنیا کی ویڈیو گیم مارکیٹ میں کام کر رہے ہیں وہ خود تو بہت تھوڑی گیمز بنا رہے ہیں۔ گیمز تو بن رہی ہیں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں۔ کیونکہ یہاں سستے ڈیویلپرز بیٹھے ہوئے ہیں ڈیڈھ سو ڈالر فی گھنٹہ کے بجائے اوسطاً 30 سے 35 ڈالر گھنٹہ میں دنیا کا بہترین دماغ دستیاب ہے۔'

پاکستان میں بھی ویڈیو گیمز کی صنعت نے پچھلے کچھ سالوں میں خاصی ترقی کی ہے۔ ( فوٹو: اردو نیوز)

پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سافٹ ویئر کی صنعت سالانہ دو ارب ڈالر سے چار ارب ڈالر کے درمیان زرمبادلہ کماتی ہے۔ جبکہ اس میں سے ویڈیو گیمز 10 سے 15 فی صد کماتی ہیں۔ جبکہ پاکستان میں اس وقت 100 سے زائد ایسے چھوٹے بڑے سافٹ ویئر ہاؤس ہیں جو اس وقت ویڈیو گیم انڈسٹری میں ہیں۔
راحیل اقبال جن کی کمپنی ’دا گیم سٹارم سٹوڈیوز‘ کے نام سے ہے بتاتے ہیں کہ 'ہماری کمپنی کی اس وقت تک پانچ سو سے زائد گیمز آن لائن جا چکی ہیں اور جن کے ڈاون لوڈ ملینز تک ہیں لیکن ان میں سے بہت کم ایسی ہیں جو ہمارے اپنے برانڈ کے نام کے ساتھ چل رہی ہیں۔ زیادہ تر ہم نے بنا کر فروخت ہی کی ہیں یا کسی بڑے برانڈ نے ہم سے بنوائی ہیں۔ کچھ گیمز ہم نے اپنے برانڈ کے نام سے بھی جاری کی ہیں ان میں سے ایک فارمنگ سے متعلق 'فارم ڈے ویلج' یے جس کو سال لگا بنانے میں اور اب اس کے ڈاون لوڈ 20 ملیں تک پہنچ چکے ہیں۔'
پاکستان سافٹ وئیر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے اعدادو شمار کے مطابق اگر پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو سب سے زیادہ گیمز پروڈیوس کرنے والا شہر لاہور ہے جبکہ دوسرے نمبر پر اسلام آباد اور تیسرے نمبر پر کراچی ہے۔
گیم سٹرام کے چیف ایگزیکٹو آفیسر راحیل اقبال ان اعدادو شمار سے متفق ہیں وہ کہتے ہیں کہ لاہور کی سافٹ ویئر کی صنعت کے بعد اب گیمنگ کی صنعت بھی سب سے آگے ہے شاید یہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم کے مواقع زیادہ ہیں یا لوگوں کا رجحان زیادہ ہے۔

'تمام گیجیٹ ایکسپیرینس بھی اب موبائل فون میں دینے کی کوشش کی جاری ہے۔' (فوٹو: اردو نیوز)

راحیل اقبال کے مطابق اب جدید ترین پلیٹ فارمز موجود ہیں جن پر گیمز بنائی جا رہی ہیں یونیٹی نامی پلیٹ فارم پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔ 'گیمنگ انڈسٹری کا مستقبل ابھی تو شاندار دکھائی دے رہا ہے کیونکہ ایک تو اس میں بہت بڑی سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔ دوسرا اس کے بیچنے کا ماڈل بہت سادہ کر دیا گیا ہے اب آپ کو گیمز خریدنے کی ضرورت نہیں ہوتی تقریباً موبائل پر کھیلی جانے والی تمام گیمز ہی آپ کو مفت میں دستیاب ہیں۔ تاہم ایڈ ٹیک اور کھیلنے کے دوران آپ پیسے خرچ کر سکتے ہیں۔ اور یہی سب سے بڑا ذریعہ ہے ان گیمز کے ذریعے پیسے کمانے کا۔ اب یہ صنعت بھی ایڈورٹائزمنٹ سے منسلک ہو چکی ہے۔‘
تشہیری کمپنیاں اب اربوں روپے کا کاروبار گیمنگ انڈسٹری کےساتھ کر رہی ہیں جس سے سافٹ ویئر کی صنعت میں خاصا بدلاؤ دیکھنے میں آیا ہے۔
راحیل اقبال کا کہنا ہے کہ 'گیمنگ کی صنعت میں بھی کافی اتار چڑھاؤ دیکھے گئے ہیں پہلے تو ایک وقت تھا کہ اس کے ساتھ ایک ہارڈ ویئر انڈسٹری بھی بننا شروع ہو گئی تھی۔ ویڈیو گیم کھیلنےکے لیے آپ کو ایسے ایسے گیجٹس دستیاب تھے جو گیم کا ایکسپیرینس دو گنا کر دیتے ہیں لیکن اب بات سمارٹ فون کی طرف جا رہی ہے وہ تمام گیجیٹ ایکسپیرینس بھی اب موبائل فون میں دینے کی کوشش کی جاری ہے کیونکہ لوگوں کے پاس اب وقت نہیں کہ علیحدہ سے گیمنگ سیٹ اپ لگائیں اب تو انہیں ہر چیز موبائل فون پر چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بڑی سے بڑی گیم کا موبائل فون ورژن بھی دستیاب ہے۔'

شیئر: