روہتاس قلعہ کے 12 دروازے ہیں اور ان میں سے ایک گیٹ جس کا نام طلاقی گیٹ ہے
آج جو مقامات بھولے بسرے قصے بن گئے ہیں اور ان تک پہنچنے کے لیے شاید طویل سفر کرنا پڑتا ہے، وہ مقامات جو کسی زمانے میں برصغیر کے لیے جغرافیائی، سیاسی اور جنگی لحاظ سے بہت اہم تھے آج وہاں ویرانی کے ڈیرے ہیں۔
گردوارہ چووا صاحب قلعہ روہتاس سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے
ان میں سے ایک قلعہ روہتاس بھی ہے۔ اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور اور ملتان کے شہری اس کی تاریخ سے واقف ہوں گے اور اکثر بچپن میں وہاں پکنک وغیرہ کے لیے بھی گئے ہوں گے اور اگر نہیں بھی گئے تو اس کے بارے میں سنا ضرور ہو گا۔
گرو نانک دیو نے اپنے چوتھے سفر کے دوران یہاں قیام کیا تھا
قلعہ روہتاس سنہ 1514 میں شیر شاہ سوری نے سات سال کی مدت میں تعمیر کرایا تھا۔ اس کی تعمیر جنگ کنوج میں مغل بادشاہ ہمایوں کو شکست دینے کے بعد شروع ہوئی تاکہ مزید افواج پھر حملہ نہ کر سکیں۔
روہتاس قلعہ کے 12 دروازے ہیں اور ان میں سے ایک گیٹ جس کا نام طلاقی گیٹ ہے اس کے پچھے چھپی ہے ایک کہانی جو کہ اس قلعے سے بھی کئی سو سال پرانی ہے۔
چووا صاحب جی گردوارے کا داخلہ قلعہ روہتاس کے کابل گیٹ کی طرف سے ہے
یہ کہانی ہے گرو نانک دیو اور ان کے شاگرد بھائی مردانہ کی، جب وہ اپنے چوتھے روحانی سفر پر نکلے تھے۔ سکھ روایات کے مطابق چالیس دن تلہ جوگیاں کی پہاڑیوں میں گزارنے کے بعد وہ سفر کرتے کرتے جہلم کے اس مقام تک پہنچے، شدید گرمیوں کا موسم تھا۔
یہ وہ تالاب ہے جو سکھ مذہب کے پیروکاروں کے لیے مقدس ہے
بھائی مردانہ نے جب اپنی پیاس کی شدت ظاہر کی تو گرو نانک دیو نے اپنی چھڑی زمین پر ماری اور بھائی مردانہ سے کہا کہ پتھر اٹھائیں، وہاں سے پانی کا چشمہ بہنے لگا۔ آج اسی جگہ پر چووا صاحب جی گُردوارہ موجود ہے۔ چووا کا مطلب ہے چشمہ، اس کا تازہ پانی آج بھی گردوارے کے گرد موجود رہتا ہے۔
گردوارے میں گرمکھی زبان میں تحریریں بھی موجود ہیں
شیر شاہ سوری کی حکومت کے بعد جب رنجیت سنگھ کا دور آیا تو ان کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے سکھوں نے بھی روہتاس کے گاؤں کو بسایا اور 1834 میں مہاراجہ نے چرت سنگھ کو اس کی تعمیر کی ذمہ داری سونپی اور یہ جگہ سکھ کمیونٹی کی عبادت گاہ اور آرام گاہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔
گردوارے کی کھڑکیوں پر سکھوں کے دور کی قدیم نقش نگاری موجود ہے
اس گردوارے کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کی دیواروں کی چوڑائی چار فٹ ہے جو اس کے اندر موجود افراد کو سخت گرمی، سردی اور موسم کی دوسری شدتوں سے محفوظ رکھتی ہے۔
گردوارے کی دیواروں کی چوڑائی چار فٹ ہے جو موسم کی شدت سے محفوظ رکھتی ہے
انگریزوں کی آمد کے بعد جب رنجیت سنگھ دور کا خاتمہ ہوا اس کے بعد بھی یہ قلعہ اور گردوارہ موجود رہا اور برصغیر کی تقسیم کے بعد سے آج تک یہ گردوارہ اسی شان سے کھڑا ہے۔
ایک جانب بہنے والا کاہان دریا ارد گرد کے علاقے کو ہرا بھرا رکھتا ہے تو دوسری جانب ویرانی میں ڈھلتا ایک قلعہ نظر آتا ہے۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد سے آج تک یہ گردوارہ اسی شان سے کھڑا ہے
ان کے عروج کے دور کا سورج ڈوب چکا مگر آج بھی گردوارے کی پیلی دیواریں اور اس کے ستونوں پر بنے قدیم نقش و نگار سکھوں کے دور کی یاد تازہ کرتے ہیں۔