پاکستان کی وزارت خارجہ کے اعلی افسران نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں انہوں نے حال ہی میں سفارت کاروں کی بیرون ملک ہونے والی تعیناتیوں کو غیر قانونی، ناانصافی پر مبنی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے انھیں کالعدم قرار دیے جانے کی استدعا کی ہے۔
درخواست گزاروں کے وکیل بیرسٹر ظفراللہ کا کہنا ہے کہ ایک افسر پوری سروس امریکہ میں اور دوسرا افریقہ میں گزار دے یہ مناسب نہیں ہے۔
اسلام ۤباد ہائی کورٹ نے ابتدائی سماعت کے بعد فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
کرپشن، کرپشن، کرپشنNode ID: 501421
-
بائیس کروڑ پاکستانیو! اب پتہ چلا؟Node ID: 502891
-
کراچی والو بات اتنی بھی آسان نہیںNode ID: 503406
تاہم ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دفتر خارجہ کے بیرون ممالک تبادلوں میں میرٹ کی خلاف ورزی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ غیر ملکی تبادلوں کی پالیسی ایک گائیڈ لائن ہے۔‘
ان کے مطابق ’تبادلے کی پالیسی کا مقصد وزارت خارجہ کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے۔ پالیسی شفاف اور انصاف پر مبنی نظام تشکیل دینے کی ایک کوشش ہے تاکہ افسران کو برابری کے مواقع ملیں اور ان کی استعداد کو خارجہ پالیسی اور وزارت کے مفاد میں استعمال کیا جا سکے۔‘
ترجمان نے کہا کہ ’افسران کے میرٹ پر تبادلے وزارت اور مشن کے لیے ضروری ہیں۔ غیر ملکی تبادلے فرد نہیں بلکہ ایک میکنزم کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ ان کے لیے مشاوررت کی جاتی ہے۔ پالیسی کے تحت کوشش کی جاتی ہے کہ افسران کا ان کی ترجیح کے مقام تبادلہ کیا جائے۔‘
کابل میں اپنی مدت پوری کرنے والے پاکستانی سفیر زاہد نصراللہ اور وزارت خارجہ میں تعینات ڈائریکٹر پبلک ڈپلومیسی ماجد خان لودھی کی جانب سے عدالت میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وزارت خارجہ کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ سے متعلق 2015 کی پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعیناتیاں اور تبادلے کیے گئے ہیں جن میں پٹیشنرز کی تعیناتیاں بھی شامل ہیں۔
ماجد خان کا تبادلہ بھی ہیڈ کوارٹر سے استنبول کیا گیا تاہم انھوں نے اپنی نئی ذمہ داری سنبھالنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایئرپورٹ اور قونصل خانے کے درمیان مسلسل سفر میں مصروف نہیں ہونا چاہتے۔

انھوں نے وزارت خارجہ کی ایڈمنسٹریشن اور سیکرٹری خارجہ کے نام تین خطوط لکھے جن میں سے پہلے خط میں انھوں نے استنبول میں جوائننگ دینے سے انکار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ ’وزارت خارجہ میں 13 سالہ سروس کے دوران صرف ایک بار جنیوا میں تعینات کیا گیا۔ سات سال سے ہیڈکوارٹر میں موجود ہوں۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’میرا انکار مجاز اتھارٹی کے اختیار کو چیلنج کرنے کے لیے نہیں بلکہ ’تبادلوں اور تعیناتیوں سے متعلق پالیسی کی خلاف ورزیوں کی نشان دہی کرنا ہے۔‘
اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ دفتر خارجہ میں افسران کی بیرون ملک تعیناتیاں کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ایک افسر پوری سروس کے دوران امریکہ اور دوسرا ساری سروس کے دوران افریقہ میں نہ گزار دے۔ اسی مقصد کے لیے 2015 میں پالیسی بنائی گئی تاکہ کسی کے ساتھ بھی نا انصافی نہ ہو اور وہ اپنے کیرییر کو بہتر انداز میں آگے بڑھا سکیں۔
کمیٹی فیصلہ کیسے کرتی ہے؟
افسران کے تبادلوں اور تقرری کے لیے دو کمیٹیان بنتی ہیں پہلی کمیٹی تقرریوں اور تبادلوں کے لیے افسران کے نام فائنل کرتی ہے اور ان سے ان کی چوائس کا سٹیشن پوچھتی ہے اور وہ پانچ سٹیشن بتاتے ہیں جبکہ دوسری کمیٹی ان افسران کے انٹرویو کرتی ہے اور اس کے بعد افسران کی کارکردگی، متعلقہ ملک اور خطے کے بارے میں علم اور زبان کو سامنے رکھتے ہوئے تقرری کی جاتی ہے۔
