یورپی یونین نے لیبیا کے لیے ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر تین کمپنیوں پر پابندیاں لگائی ہیں جن میں ترکی، قزاقستان اور اردن کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ جبکہ ترکی نے اس فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں ہونے والے یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں طے کیا گیا ہے کہ ان کمپنیوں کے یورپی یونین میں موجود اثاثوں کو منجمند کیا جائے گا، یورپی یونین کی فنانس مارکیٹ سے علیحدہ کیا جائے گا اور ان کو یورپی بلاک میں کسی ملک کے ساتھ کاروبار کرنے سے روکا جائے گا۔
تاہم ترک کمپنی پر پابندی لگانے سے مشرقی بحیرہ روم میں یورپی یونین اور ترکی کے درمیان جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
’یورپ کو ترکی کے خلاف متحد ہونا چاہیے‘Node ID: 504226
-
’ترکی یونان کو دھمکانے سے باز رہے‘Node ID: 505376
-
ترکی اور یونان کے درمیان مذاکرات شروع ہونے کا امکانNode ID: 506211
یورپی یونین کا کہنا ہے کہ ترک کمپنی اوراسیا شپنگ کے ایک جہاز کا نام سرکن ہے جس نے مئی اور جون میں ہتھیاروں پر پابندی کے باوجود لیبیا کے لیے فوجی سازو سامان پہنچایا۔
ترکی کی وزارت خارجہ نے یورپین یونین کے اس فیصلے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق ’ایک ایسے وقت میں جب مشرقی بحیرہ روم میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کوشش کی جارہی ہے، ایسے غلط فیصلے کرنا مناسب نہیں ہے۔‘
بیان میں یورپی یونین پر یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ اس کے لیبیا کے نیول مشن ’آیرینی‘ نے ’خصوصاً متحدہ عرب امارات کی طرف سے‘ خلیفہ ہفتار کو بھیجے جانے والے ساز و سامان کو نظر انداز کیا ہے۔
بیان کے مطابق ’یورپی یونین کے مشن آیرینی کے تحت ہفتار کی حمایت کی جا رہی ہے جبکہ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ لیبیا کی حکومت کو سزا دی جا رہی ہے۔‘
لیبیا میں نیشنل اکارڈ (جی این اے) کی حکومت کو ترکی اور قطر کی حمایت حاصل ہے جبکہ ہفتار کو یو اے ای، فرانس، مصر اور روس کی حمایت حاصل ہے۔
ترک وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ’ اگر یورپی یونین خطے میں سکیورٹی اور استحکام چاہتی ہے تو اسے اپنے متعصبانہ رویے کو بدلنا ہوگا، او ترکی کے ساتھ بات چیت کرنا ہوگی۔‘
