چین کے اویغور مسلمانوں کو رہا کرنے کے دعوؤں کے باوجود حراستی مراکز کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ فائل فوٹو: روئٹرز
چین میں شمال مغربی سنکیانگ کے علاقے میں موجود حراستی مراکز کا نیٹ ورک تصور سے بھی زیادہ وسیع ہے اور حالیہ برسوں میں مزید بڑھا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے آسٹریلین سٹریٹیجک پالیسی انسٹیٹیوٹ نامی ایک تھنک ٹینک کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اس نے چین میں 380 سے زائد 'مشتبہ حراستی مراکز' کی شناخت کی ہے۔ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں چین نے 10 لاکھ سے زیادہ اویغور اور ترک زبان بولنے والے دیگر مسلمان باشندوں کو قید کیا ہوا ہے۔
آسٹریلوی محققین کے مطابق ان مراکز کی تعداد پہلے لگائے گئے اندازوں سے 40 فیصد زیادہ ہے اور چین کے اویغور باشندوں کو رہا کرنے کے دعوؤں کے باوجود بڑھ رہی ہے۔
سیٹلائٹ کی تصاویر، عینی شاہدین کے بیانات، میڈیا رپورٹس اور سرکاری دستاویزات کا استعمال کرتے ہوئے انسٹیٹیوٹ نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ 'جولائی 2019 سے جولائی 2020 تک کم از کم 61 حراستی مراکز پر تعمیر نو اور وسیع کرنے کا کام ہوا ہے۔‘
سال 2020 میں 14 مزید مراکز زیر تعمیر تھے اور 70 کی دیواریں گرائی گئی تھیں، جس سے اس بات کی طرف اشارہ جاتا ہے کہ ان کا استعمال بدل گیا ہے یا انہیں بند کر دیا گیا ہے۔
حال ہی میں بیجنگ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں سنکیانگ کے حوالے سے پالیسیوں کا دفاع کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سنکیانگ میں ٹریننگ پروگرامز، کام کی سکیمیں اور بہتر تعلیم کا مطلب ہے زندگی بہتر ہوئی ہے۔
بیجنگ نے اپنی رپورٹ میں سنکیانگ کے ان 'ٹریننگ کے مراکز' کا دفاع کرتے ہوئے ان کو انتہاپسندی ختم کرنے کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
آسٹریلوی تھنک ٹینک کی رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد چین کی حکومت کے زیراثر جریدے گلوبل ٹائمز نے 'ذرائع' کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آسٹریلین سٹریٹیجک پالیسی انسٹیٹیوٹ میں لکھنے والے کلیو ہیملٹن اور ایلکس جوسک کے چین میں داخل پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
چین کی درآمدات پر امریکہ کی پابندی
امریکہ کی جانب سے چین میں جبری مشقت کے دعوؤں اور اس کے نتیجے میں چین کی درآمدات پر پابندی لگانے پر بدھ کو چین نے ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک جھوٹ ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ میں ایوان نمائندگان میں اکثریت نے منگل کو چین کی درآمدات پر پابندی لگانے کے لیے ووٹ دیا تھا اور اس کی وجہ سنکیانگ میں جبری مشقت کو قرار دیا تھا۔
تاہم چین نے اس پر کہا ہے کہ امریکہ نے ایسا چین کے انسانی حقوق کی صورتحال کو بدنام کرنے کے لیے کیا ہے۔