Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اونٹ کی کوہان سے مشابہہ دمدار ستارہ عجائب گھر میں

امکان ہے کہ یہ عرب دنیا میں گرنے والا سب سے بڑا دمدار ستارہ ہو- فوٹو: العربیہ
 سعودی عرب کے صحرا الربع الخالی میں اونٹ کے کوہان جیسا گرنے والا دمدار ستارہ ریاض کے قومی عجائب گھر میں رکھ دیا گیا ہے۔ اس کا وزن 2.57 ٹن ہے اور یہ سعودی عرب کی تاریخ میں گرنے والا سب سے بڑا دمدار ستارہ مانا جاتا ہے۔ 
العربیہ نیٹ کے مطابق ماہرین طبقات الارض نے 1966 کو الربع الخالی  کے دورے کے موقع پر اسے دریافت کیا تھا-  

دمدار ستارے کا وزن 2 ٹن سے زیادہ ہے- فوٹو: العربیہ

کنگ سعود یونیورسٹی میں معدنیات اور طبقات الارض کے علوم کے پروفیسر ڈاکٹر احمد المہندس نے بتایا کہ اس کا امکان ہے کہ یہ عرب دنیا میں گرنے والا سب سے بڑا دمدار ستارہ  ہو۔ 
ڈاکٹر احمد کا کہنا ہے کہ الیمامہ سیمنٹ فیکٹری میں 1978 کے دوران سیمنٹ کے ترازو سے اس دمدار ستارے کا وزن اپنی نگرانی میں کرایا تھا۔ 
 دمدار ستارے کا وزن  2200 کلو گرام ہے اور یہ اونٹ کے کوہان سے ملتا جلتا ہے۔ 

زمین پر پہنچنے سے قبل فضا میں اس کے چار ٹکڑے ہوگئے تھے- فوٹو: العربیہ

پروفیسر احمد نے بتایا کہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے معروف انسٹی ٹیوٹ سمتھ سونین کے تعاون سے اس دمدار ستارے کا معدنیاتی اور کیمیائی اعتبار سے مطالعہ کیا تھا۔ دمدار ستاروں کے علوم کے میگزین میں اس کی بابت جائزاتی رپورٹ شائع کر چکا ہوں۔  
 پہلے دمدار ستارے کو ریاض کے الملز محلے میں کنگ سعود یونیورسٹی کے پرانے کیمپس میں فیکلٹی آف سائنس کی عمارت کے سامنے رکھا گیا تھا پھر اسے الدرعیہ روڈ پر کنگ سعود یونیورسٹی کے نئے کیمپس میں منتقل کر دیا گیا۔ اب اسے ریاض شہر کے المربع محلے میں واقع نیشنل میوزیم میں سجا دیا گیا ہے۔ 

اسے 1932 میں دریافت کیا گیا تھا- فوٹو: العربیہ

پروفیسر احمد نے بتایا کہ دمدار ستارے کی دریافت کا سہرا انگریز سیاح جان فلیپی کے سر جاتا ہے جنہوں نے اسے 1932 میں دریافت کیا تھا اور پھر 20 ویں صدی کے آخری عشرے میں اس کے محل وقوع کی نشاندہی کی گئی- اس کے تین دہانے ہیں جو 116، 64 اور 11 میٹر کے ہیں۔
یہ 1932 میں تقریبا 12 میٹر اونچا تھا۔1961 میں اس کی اونچائی 8 میٹر رہ گئی پھر 1982 میں اس کا حجم 3 میٹر ہوگیا۔ حالیہ برسوں میں اس کے دہانے ریت سے بھر گئے۔
پروفیسر احمد المہندس نے بتایا کہ دمدار ستارے کا رخ گرتے وقت شمال مغرب کی جانب تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ گرتے وقت اس کی رفتار بہت  زیادہ تھی۔ امکان ہے کہ اس کا حجم ساڑھے تین ٹن رہا ہوگا۔ گرنے سے پہلے بھی اس کے متعدد اجزا متاثر ہوئے۔ زمین پر پہنچنے سے قبل فضا میں ہی اس کے  چار ٹکڑے ہوگئے تھے۔ اب اس کا سب سے بڑا ٹکڑا ریاض کے قومی عجائب گھر میں محفوظ ہے۔ 

 

خود کو اپ ڈیٹ رکھیں، واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

شیئر: