شہباز شریف نے نیب کے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی (فوٹو: اے ایف پی)
منی لانڈرنگ کیس میں مہینوں تک عبوری ضمانت پر رہنے کے بعد مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف بالآخر سوموار کو گرفتار ہو گئے ہیں۔
نیب نے لاہور ہائی کورٹ سے ان کی عبوری ضمانت کی درخواست خارج ہونے کے بعد انہیں عدالت کے احاطے سے گرفتار کر لیا ہے۔
نیب کی جانب سے 28 مئی کو اس کیس میں شہباز شریف کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے اور دو جون کو ان کی گرفتاری کے لیے ان کی ماڈل ٹاؤن میں واقع رہائش گاہ پر چھاپے بھی مارے تھے مگر شہباز شریف کو گرفتار نہیں کیا جا سکا تھا اور تین جون کو انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سےعبوری ضمانت حاصل کر لی تھی۔
عدالت نے عبوری ضمانت منظور کرتے وقت انہیں پانچ لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کی ہدایت کی تھی۔ نیب کے وکیل سے پوچھا تھا کہ شہباز شریف کے خلاف کیس کس مرحلے پر ہے، وکیل نے جواب دیا کہ انویسٹی گیشن کی سٹیج پر ہے۔
جون میں ہی شہباز شریف کا کورونا ٹیسٹ مثبت آ گیا تھا جس کے باعث وہ دو پیشیوں پر حاضر نہیں ہوئے تھے۔
15 جنوری 2019 کو نیب نے شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست کی تھی۔
اس سے قبل شہباز شریف کو نیب نے پانچ اکتوبر 2018 کو آشیانہ ہاؤسنگ سکیم اور رمضان شوگر ملز کیس میں بھی گرفتار کیا تھا تاہم 14 فروری 2019 کو لاہور ہائی کورٹ نے اُن کی ضمانت منظور کی تھی۔
شہباز شریف ضمانت پر رہائی کے بعد سابق وزیر اعظم اور اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کے علاج کی غرض سے ان کے ساتھ لندن روانہ ہوئے اور چند ماہ وہاں گزارنے کے بعد کورونا وائرس پھیلنے پر وہ وطن واپس آگئے تھے۔
شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس ہے کیا؟
رواں برس اگست میں قومی احتساب بیورو نے منی لانڈرنگ کیس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور ان کے صاحبزادوں حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا۔ ریفرنس میں شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلمان شہباز ، نصرت شہباز سمیت سولہ افراد کو نامزد کیا گیا۔
شہباز شریف سمیت 16 ملزمان کے خلاف ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ شہباز شریف فیملی نے ملازمین اور قریبی دوستوں کی مدد سے اربوں کی منی لانڈرنگ کی اور کالا دھن سفید کیا اور اسی پیسے سے پاکستان میں جائیدادیں بنائی گئیں۔
نیب پراسکیوٹرسید فیصل رضا بخاری نے لاہور ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی رپورٹ میں شہباز شریف سے متعلق مشکوک ترسیلات سامنے آئیں۔ تاہم ریفرنس دائر ہونے کے باجود شہباز شریف کی حد تک ابھی تحقیقات مکمل نہیں ہوئی اس لیے ان کی گرفتاری ضروری ہے۔
نیب کے وکیل کے مطابق شہباز شریف اور ان کے صاحبزادوں نے 2008 سے 2018 تک نو کاروباری یونٹس قائم کیے۔
1990 میں شہباز شریف کے اثاثوں کی مالیت 21 لاکھ تھی، 1998 میں ان کے اور ان کی اولاد کے اثاثوں کی مالیت ایک کروڑ آٹھ لاکھ ہوگئی۔ جبکہ 2018 میں شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے اثاثوں کی مالیت بینامی کھاتے داروں، فرنٹ مین کی وجہ سے چھ ارب کے قریب پہنچ گئی۔ نیب پراسیکیوٹر کے مطابق شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ نے کرپشن کرکے اس وقت سات ارب سے زائد کے اثاثے بنا لیے ہیں۔
نیب کے مطابق شہباز شریف نے اپنے فرنٹ مین، ملازمین اور منی چینجرز کے ذریعے اربوں روپے کے اثاثے بنائے۔ شہباز شریف نے متعدد بے نامی اکاؤنٹس سے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی۔
تاہم شہباز شریف نے نیب کے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ ’انہوں نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی۔ بلکہ میرے بھائی (نواز شریف) اور بیٹوں کی ملوں کو میرے فیصلوں سے 90 کروڑ کا نقصان ہوا۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر کرپشن کی ہوتی تو واپس کیوں آتا، لندن میں رہ کر زندگی گزارتا۔
شہباز شریف نے بتایا کہ انہوں نے کسانوں کو نقصان پہنچایا نہ پنجاب حکومت کے خزانے کو۔ ’ایتھنول پر میں نے ٹیکس لگایا حالانکہ میرے اپنے بیٹے کی مل تب بن رہی تھی ۔میرے بیٹے نے مجھے کہا کہ ایتھنول پر ایکسائز ڈیوٹی نہ لگائیں میں نے کہا یہ لگے گی میرے والدین غریب تھے اور انہوں نے محنت کی اور 1997 میں سب سے بڑا گروپ بن گیا۔‘
بزنس کے بارے میں ان کا کہنا تھا ’جب سے ہمارا بزنس اوپر ہے تب میں اور نواز شریف گورنمنٹ کالج میں پڑھ رہے تھے۔‘ انہوں نے عدالت میں کہا کہ وہ حلف پر کہتے ہیں نیب نے کہا تھا کہ آپ سے تفتیش مکمل ہوگئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت میری زبان بندی چاہتی ہے۔