نیہا وساوا اور ایک چھ برس کا بچہ احمد آباد کے سب سے بڑے کچرے کے ڈھیر پر اس وقت موجود تھے جب سنیچر کی شام کو کچرے کا ڈھیر گرا۔ اس کچرے کے ڈھیر کی اونچائی 80 سے 100 فٹ تک ہے۔
ایک اندازے کے مطابق چار کروڑ انڈین شہری جن میں بچے بھی شامل ہیں، خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں اور کچرے سے دھات اور دوسری اشیا چن کر فروخت کرتے ہیں۔
احمد آباد کے ڈپٹی فائر افسر ایم پی مستری نے اے ایف کو بتایا کہ ’بچہ بھی کچرے میں دبا ہوا تھا۔ چونکہ اس کا سر کچرے میں دیکھا جا سکتا تھا اس لیے مقامی افراد نے اس بچے کو بچا لیا۔‘
ایم پی مستری کا کہنا ہے کہ لڑکی کو ڈھونڈنے تک آپریشن جاری رہے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امدادی کارروائی میں مشکل پیش آئی کیوں کہ کچرے میں سانس لینا مشکل تھا، اسی طرح آوارہ کتوں کے گھومنے کی وجہ سے بھی مشکل پیش آئی۔
پانچ اعشاریہ چھ ملین لوگوں کا تین ہزار پانچ سو ٹن کچرا ایک ہی دن میں اسی جگہ پہنچتا ہے، یہاں سے کئی سو غریب خاندان کچرا چنتے ہیں جس کو بعد میں فروخت کیا جاتا ہے۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے مطابق جنوبی ایشیا میں 12 سال سے کم عمر کے چار کروڑ سے زائد بچے کام کرنے پر مجبور ہیں۔
ماہرین کے مطابق کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاؤنز نے بھی بچوں کے مزدوری کے مسئلے کو مزید بڑھا دیا ہے۔