Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بس لڑکی مسلمان ہوتی

ہندو مسلم اتحاد کی تھیم پر نشر ہونے والے اشتہار پر انڈیا میں تنقید کی جاری ہے۔ فوٹو ٹوئٹر
سوشل میڈیا پر آپ نے وہ اشتہار تو دیکھ ہی لیا ہوگا جس پر ہندوستان میں ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ پورے ہندوستان میں تو نہیں کیونکہ زیادہ تر لوگوں کو اور بھی غم ہیں محبت کے سوا لیکن جن لوگوں کی زندگی سوشل میڈیا پر ہی گزرتی ہو یا جن کی روزی روٹی ٹرولنگ سے چلتی ہو یا جن کے توانا کندھوں پر اپنے مذہب کی حفاظت کی ذمہ داری ہو یا انہیں لگتا ہو کہ ہے، یا جن کو لگتا ہو کہ ملک ہندوؤں کا ہے لیکن مزے مسلمان کر رہے ہیں، تو ان کا ناراض ہونا تو بنتا ہے۔
آپ کہیں گے کہ بھائی پھر بچا کون؟ تو یہ سوا ارب کا ملک ہے یہاں چاہے کتنے بھی لوگ کسی کاز سے جڑ جائیں، ان سے کہیں زیادہ کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی۔ اور سوشل میڈیا پر جتنے لوگ ہنگامہ مچاتے ہیں ان سے زیادہ تو ہر وقت دلی کے بس اڈے پر بسوں کے انتظار میں کھڑے رہتے ہیں۔
لیکن آج کل لگنے ایسا لگا ہے کہ جیسے سوشل میڈیا پوری قوم کے جذبات کی عکاسی کرتا ہو۔
بہرحال، وقت کے ساتھ چلنا ہے تو سوشل میڈیا کی آواز کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔
اشتہار جاری کرنے والی کمپنی ’تنیشق‘ انڈیا میں ڈیزائنر گہنوں کے لیے مشہور ہے۔ یہ ٹاٹا گروپ کی کمپنی ہے جس کا شمار ملک کے سب سے بڑے صنعتی گھرانوں میں ہوتا ہے۔
انڈیا میں یہ تیوہاروں کا سیزن ہے، اس وقت ہندو سونا خریدنے کو اچھا شگون مانتے ہیں اس لیے سناروں کی چاندی ہوجاتی ہے۔
تنیشق نے ہندو مسلم اتحاد کی تھیم پر ایک اشہتار جاری کیا جس میں ایک ہندو لڑکی کو ایک مسلمان گھرانے کی بہو دکھایا گیا ہے اور اس کے سسرال والے اس کی خوشی کے لیے اپنی خوشی سے ایک ہندو رسم ادا کر رہے ہیں۔
کچھ لوگوں کو یہ اشتہار اور اس کا پیغام بہت خوبصورت لگا لیکن یہ شاید وہ لوگ تھے جو زیادہ زیورات نہیں خریدتے۔ اگر آپ زیور خریدتے ہی نہیں تو پھر کسے پروا ہے کہ آپ کیا سوچتے ہیں۔ جن کی آواز زیادہ سنائی دی انہیں اس اشتہار سے ’لو جہاد‘ کی بو آ رہی تھی۔
انہیں لگا کہ کمپنی (جس کے مالک نہ ہندو ہیں نہ مسلمان، وہ پارسی ہیں) اس مبینہ سازش کو فروغ دے رہے تھے جس کے تحت کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ مسلمان لڑکے ہندو لڑکیوں کو اپنی جھوٹی محبت کے جال میں پھنسا کر ان سے شادی کر لیتے ہیں۔
اس لیے ان کا کہنا تھا کہ ہمت تھی تو لڑکی مسلمان دکھاتے اور لڑکا ہندو۔ اب یہ لو جہاد کی کہانی آپ کو کتنی بھی بے تکی لگے لیکن آپ کو حیرت ہوگی کہ خود انڈیا کی سپریم کورٹ نے ان الزامات کی تفتیش کا حکم دیا تھا اور انکوائری اس ادارے سے کرائی گئی تھی جو دہشت گردی کے واقعات کی چھان بین کرتا ہے۔
ایجنسی کے ہاتھ تو کچھ نہیں لگا اور اگر وہ اس نتیجے پر پہنچی بھی کہ محبت کی نہیں جاتی بس ہو جاتی ہے، تو اس نے اپنی رپورٹ میں اس کا ذکر نہیں کیا۔
ٹاٹا کی دلچسپی ظاہر ہے کہ زیوارات بیچنے میں تھی، اس لیے جب انہیں لگا کہ تنازع بڑھ رہا ہے تو انہوں نے اپنا اشتہار واپس لے لیا۔
بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ٹاٹاز کو تھوڑی ’سپائن‘ دکھانی چاہیے تھی، اور چونکہ اشتہار میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں تھی، اور نہ ہی باقی دنیا سے کہا جا رہا تھا کہ آپ بھی ایسا کریں، اس لیے انہیں اشہتار واپس نہیں لینا چاہیے تھا۔
لیکن اصل دنیا میں کاروبار ایسے نہیں چلتے۔ اشتہار ہندو مسلم اتحاد اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے نہیں زیور بیچنے کے لیے بنایا گیا تھا، اگر اشتہار کی وجہ سے اچھی کے بجائے خراب پبلیسٹی ملنے لگے تو کوئی بھی بزنس مین وہی کرتا جو تنیشق نے کیا۔
لیکن ہمیں نہ اشتہار بنانے پر اعتراض ہے اور نہ واپس لینے پر۔ نہ اشتہار بنانے سے پہلے تنیشق نے ہم سے اجازت مانگی تھی اور نہ واپس لیتے وقت۔ وہ جانیں اور ان کا کاروبار۔ اپنی سمجھ سے تو یہ بات باہر ہے کہ لڑکی مسلمان ہوتی تو کیا بدل جاتا؟

تنیشق جیولری کمپنی کو تنقید کے بعد اشتہار واپس لینا پڑا تھا۔ فوٹو فری پک

جب کوئی ہندو لڑکا کسی مسلمان لڑکی سے شادی کرتا ہے تو وہ واقعی محبت ہوتی ہے یا وہ بھی ’گھر واپسی‘ کی وسیع تر سازش کا حصہ ہے۔ جب مسلمان لڑکے شادی کا خیال کرتے ہیں تو کیا گھروں سے یہ سوچ کر نکلتے ہیں کہ چلو کوئی ہندو لڑکی ڈھونڈتے ہیں، اسے بہلا پھسلا کر اس سے شادی کر لیں گے، پھر کچھ سال اپنے اور اس کے ماں باپ اور بھائی بہنوں کو منانے میں لگائیں گے، وہ نہیں مانے تو بھی کیا فکر ہے، جہاد کے لیے کچھ قربانی تو دینی ہی پڑتی ہے، وہ چاہے محبت کی ہی کیوں نہ ہو۔
سچ یہ ہے کہ جو لوگ مذہب سے باہر شادی کرتے ہیں ان کی آزمائش آسانی سے ختم نہیں ہوتی۔ نہ معاشرے میں نہ اپنے خاندانوں میں۔ بس مٹھی بھر لوگ ایسے ہوں گے جو دل سے بین مذہبی شادیوں کو قبول کرلیتے ہیں۔
اس پورے تنازع میں میں وہ لوگ حاوی رہے جو لڑکیوں کی عقل پر زیادہ بھروسہ نہیں کرپاتے، چاہے وہ کتنی بھی تعلیم یافتہ کیوں نہ ہوں۔ مسلمان لڑکے اتنے شاطر ہوتے ہیں کہ وہ اپنی شناخت چھپا لیتے ہیں اور جب تک لڑکیوں کو ان کی اصلیت معلوم ہوتی ہے بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ بھائی، آپ لوگ بھی اب بڑے ہو جائیے۔
لیکن دنیا سازش کی تھیوریوں پر ہی چلتی ہے، اس لیے جسے جو ماننا ہے مانے۔ سچ صرف اتنا ہے کہ زمانہ بدل رہا ہے، لڑکے لڑکیوں کو آپس میں ملنے کے زیادہ مواقع ملتے ہیں، کبھی کالج میں تو کبھی آفس میں، اور جب محبت زور مار رہی ہو تو پھر دنیا کی کون پروا کرتا ہے۔
کم سے کم اس وقت تک تو نہیں جب تک کرائے پر فلیٹ لینے کا نمبر آتا ہے، اور پھر مکان مالک کو پتا چلتا ہے کہ ایک پارٹنر ہندو ہے اور دوسرا مسلمان تو وہ سوچتا ہے کہ بے کار چکر میں پڑنے سے کیا فائدہ، محبت اور شادی انہوں نے کی ہے کہیں ہم بلا وجہ لڑائی جھگڑے میں نہ پھنس جائیں۔

بی جے پی کی حکومت میں مسلمانوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

جن لوگوں کو اس طرح کی شادیوں پر اعتراض ہے ان کے لیے بری خبر یہ ہے کہ یہ تھمنے والی نہیں ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں اب وہ کرتے ہیں جو انہیں اپنے حق میں بہتر لگتا ہے۔
اس بات کا چانس کم ہی ہے کہ وہ گھر جاکر اپنے والدین سے کہیں گے کہ مجھے ایک ہندو یا مسلمان سے محبت ہوگئی ہے، یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے، آپ کوئی دوسرا لڑکا دیکھ کر جلدی سے میری شادی کردیجیے۔
بنیادی بات لڑکی اور لڑکے کے درمیان فرق کی ہے۔ اعتراض کرنے والوں کو جب یہ بات سمجھ میں آجائے گی تو ان کے لیے یہ سمجھنا بھی آسان ہوجائےگا کہ شادی میں (یا اشتہار میں ہی سہی) لڑکی ہندو ہو یا مسلمان، کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ سچ یہ ہے کہ محبت شناختی کارڈ دیکھ کر نہیں کی جاتی۔ بس ہو جاتی ہے!
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر: