پاکستان میں جوں جوں سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے توں توں حکومت اور اپوزیشن کے بیانیے میں سختی پیدا ہو رہی ہے۔
اپوزیشن نے کورونا کے باوجود اپنے جلسے موخر نہیں کیے تو حکومتی ایوانوں کی جانب سے رٹ چیلنج کرنے والوں سے سختی سے نمٹنے کے بیانات بھی تواتر سے آرہے ہیں۔
چونکہ اپوزیشن کے اگلے جلسوں کا محور پنجاب ہے تو وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے یہ بیان دو بار دیا گیا ہے کہ ’ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔‘
مزید پڑھیں
-
پی ڈی ایم جلسہ: 'ہمارا کارکن ماسک پہنے گا'Node ID: 520766
-
پی ڈی ایم جلسہ: کارکنان تالے توڑ کرسٹیڈیم میں داخلNode ID: 521166
-
مشکل وقت میں قیادت سنبھالنے والی پاکستان کی سیاسی خواتینNode ID: 521281
ریاست کی رٹ سے کیا مراد ہے؟
ایسے میں یہ سوال اٹھنا لازمی امر ہے کہ ریاست کی رٹ کا تصور بنیادی طور پر ہے کیا۔ اور کیا سیاسی طور پر جلسے کرنے یا احتجاج کرنے سے ریاست کی رٹ متاثر ہوتی ہے؟
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ حکومتی ایوانوں سے ایسے بیان سامنے آرہے ہیں۔ ماضی میں بھی حکومتیں اپوزیشن کے احتجاج پر ایسے بیان دیتی رہی ہیں۔
سلمان اکرم راجہ کا تعلق پاکستان کے بڑے وکیلوں اور آئینی ماہرین میں ہوتا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریاستی رٹ کا مطلب قانون کی پاسداری ہے۔ ’ریاستی رٹ کا مطلب ہے کہ جو قانون میں لکھ دیا گیا ہے یا آئین میں لکھ دیا گیا ہے اس پر عمل درآمد کروانا۔ یہ حکومت پر لازم ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کروائے۔‘

موجودہ سیاسی پس منظر میں ان کا کہنا تھا کہ ’جلسے کرنا یا احتجاج کرنا اصل میں بولنے کا حق ہے جو کہ آئین میں درج ہے۔ اور احتجاج کسی ایسی شکل میں نہ داخل ہو جائے جس میں قانون کی عملداری متاثر ہو تو ریاستی رٹ اس سے متاثر نہیں ہوتی۔ حکومت کا کام رٹ بحال کرنے کے بیان دینا نہیں ہوتا ریاست ماتم نہیں کرتی بلکہ رٹ پر عمل کرواتی ہے۔‘
چوہدری اعتزاز احسن کے مطابق ریاست کی رٹ سے مراد آئین ہے۔
’آئین ایک ایسی دستاویز ہوتی ہے جس میں ریاست کے امور اور عوام کے حقوق متعین کر دیے جاتے ہیں۔ اس پر مکمل عمل درآمد ہی اصل میں ریاستی رٹ ہے۔‘
