’تیونس کے سبزی فروش محمد بوعزیزی جب خود سوزی پر مجبور ہو گئے‘
’تیونس کے سبزی فروش محمد بوعزیزی جب خود سوزی پر مجبور ہو گئے‘
منگل 8 دسمبر 2020 17:46
بوعزیزی کی بہنوں کا کہنا ہے کہ انقلاب کے باوجود شہریوں کو حقوق نہیں مل سکے۔ فوٹو اے ایف پی
مشرق وسطیٰ میں حکومت مخالف تحریکوں کا محرک بننے والے تیونس کے سبزی فروش نوجوان کی بہنوں کا کہنا ہے کہ شہریوں کو اپنے حقوق کے حصول کی جنگ جاری رکھنی چاہیے۔
سبزی فروش محمد بوعزیزی کی بہن لیلیٰ بوعزیزی نے خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے بات چیت کے دوران اعتراف کیا کہ 2010 میں شروع ہونے والی تحریکوں کے بعد بھی معاشی مسائل کے حل کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔
یاد رہے کہ عرب سپرنگ کے نام سے جانی جانے والی حکومت مخالف تحریکوں کا آغاز 2010 میں ہوا تھا جب تیونس میں رہنے والے ایک سبزی فروش محمد بوعزیزی نے پولیس کے رویے کے خلاف احتجاجاً خود سوزی کر لی تھی۔
لیلیٰ بوعزیزی کا کہنا تھا کہ عرب سپرنگ کے آغاز کے بعد عوام کو امید تھی کہ مسائل کا حل تلاش کیا جائے گا، لیکن بدقسمتی سے حکومت نے کچھ نہیں کیا۔
تیونس میں برپا ہونے والے انقلاب نے ملک پر 23 سال قابض رہنے والے صدر زین العابدین بن علی کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا جس کے بعد کمزور جمہوری نظام نافذ کیا گیا تھا۔
انقلاب کی وجہ بننے والے محمد بوعزیزی اور ان کے خاندان کا تعلق متوسط طبقے سے تھا جو دیہی علاقے سیدی بوزید میں رہائش پذیر تھے۔
تیونس کے بیشتر نوجوانوں کی طرح 26 سالہ بوعزیزی بھی اپنے خاندان کی کمائی کا واحد ذریعہ تھے، سبزیاں اور پھل بیچ کر خاندان کی ضروریات پوری کر رہے تھے۔
17 دسمبر سنہ 2010 میں پولیس نے محمد بوعزیزی کی ریڑھی اور فروخت کے لیے سامان کو ضبط کر لیا تھا جس کے بعد انہوں نے حکام کے رویے کے خلاف احتجاجاً خود کو آگ لگا دی تھی۔
محمد بوعزیزی کی 34 سالہ بہن لیلیٰ کا کہنا تھا کہ کئی واقعات رونما ہونے کے بعد بالآخر ان کے بھائی خود سوزی کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
لیلیٰ نے اپنے بھائی کے ساتھ ہونے والا واقعہ دہراتے ہوئے بتایا کہ پولیس اور محمد بوعزیز کے درمیان بحث کے دوران پولیس اہلکار نے ان کے بھائی کو تھپڑ بھی مارا تھا۔ تاہم تھپڑ مارنے والے واقعے کی تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔
لیلیٰ نے مزید بتایا کہ بوعزیزی نے حکام سے ان کے ساتھ پیش آنے والے تمام واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا جس کا کوئی جواب نہ ملنے پر وہ نہایت ناراض تھے، جس کے بعد انہوں نے احتجاجاً خود کو آگ لگا دی۔
محمد بوعزیزی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے سنہ 2011 میں دم توڑ گئے تھے۔
محمد بوعزیزی کی خود سوزی سے ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جو مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک تک پھیل گیا تھا۔
انقلاب کے مخالفین کی جانب سے بوعزیزی کے اہل خانہ کو موت کی دھمکیوں کا سامنا رہا ہے۔ لیلیٰ نے بتایا کہ ان کے خاندان کے بارے میں غلط خبریں پھیلنا شرع ہو گئی تھیں کہ میڈیا کی توجہ کا مرکز بننےکے بعد وہ بہت امیر ہو گئے ہیں۔
کینیڈا کی امیگریشن ملنے کے بعد لیلیٰ اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے ساتھ ریاست کیوبیک میں رہتی ہیں جہاں وہ ایروناٹک انڈسٹری میں ملازمت کر رہی ہیں۔
لیلیٰ نے انقلاب کے نتیجے میں آنے والی تبدیلوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ تیونس کو نیا آئین ملا ہے اور کئی جمہوری انتخابات ہو چکے ہیں، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد کوئی حکمران عوام سے کیے ہوئے وعدے نہیں پورے کرتا۔