Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں احتجاج: ’اگر حکومت ضدی ہے تو کسان بھی ضدی ہیں‘

امیت شاہ نے منگل کو کسانوں کے مختلف گروپس کے 14 قائدین سے ملاقات کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
انڈین وزیر داخلہ امیت شاہ کے نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کے ساتھ منگل کی رات ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ رہے جس کے بعد حکومت کے ساتھ بدھ کو ہونے والی ملاقات سرد مہری کا شکار ہو گئی ہے۔
امیت شاہ نے منگل کو کسانوں کے مختلف گروپس کے 14 قائدین سے ملاقات کی تاہم یہ اجلاس کسی پیش رفت کے بغیر ہی ختم ہوگیا۔
خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق کسانوں کی تنظیموں نے کہا ہے کہ انھیں حکومت کی جانب سے تحریری تجاویز موصول ہوئی ہیں۔
بھارتیہ کسان یونین کے ریاستی صدر منجیت سنگھ نے بتایا کہ ’حکومت نے جو تجاویز ارسال کی ہیں وہ 20 صفحات پر مشتمل ہیں۔کسان رہنماؤں کی میٹنگ میں اسے پڑھا جائے گا اور پھر اس پر غور کیا جائے گا۔‘
 

 
 اس سے قبل کسانوں نے دو ٹوک انداز اپناتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کو تینوں قوانین واپس لینے ہوں گے اس سے کم پر وہ کچھ بھی تسلیم نہیں کریں گے۔
دہلی میں داخل ہونے والی سرحد سنگھو پر دھرنا دینے والی کمیٹی نے کہا ہے کہ ’اگر حکومت ترامیم کی بات کرتی ہے تو بھی  یہ منظور نہیں ہے۔‘
بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹکیت کے بقول حکومت کی تجاویز کے بعد ہی کوئی بات واضح ہوگی۔ اے این آئی کے مطابق انھوں نے کہا کہ  'اب حکومت کے ساتھ چھٹے دور کی بات چیت نہیں ہوگی۔ حکومت چاہتی ہے کہ کسان سرکار کی پیشکش پر غور کرے۔ میٹنگ میں ہی ہم مستقبل کی حکمت عملی پر غور کریں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا 'یہ کسانوں کے وقار کی بات ہے، پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ کیا حکومت زرعی قانون واپس نہیں لے گی؟ کیا یہاں آمریت چلے گی؟ اگر حکومت ضدی ہے تو کسان بھی ضدی ہیں۔'

دوسری جانب حکومت نے عندیہ دیا  ہے کہ وہ اس معاملے میں پیچھے نہیں ہٹے گی۔ جاڑے کے موسم میں مختلف ریاستوں کے ہزاروں کسان سڑکوں پر موجود ہیں اور آج ان کے احتجاجی مظاہرے کا 14 واں دن ہے۔
اس سے قبل کسان رہنماؤں کے مطابق وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا تھا کہ بدھ کو ہونے والے مذاکرات میں انڈین وزیر زراعت نریندر سنگھ تومار کو متنازعہ زرعی قوانین میں ترمیم کے حوالے سے تجویز پیش کریں گے۔
کسانوں کی حمایتی یونین رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اجلاس میں شرکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پہلے وہ حکومت کی جانب سے پیش کی جانے والی تحریری تجاویز کا جائزہ لیں گے اور اس کے بعد مستقبل کے لائحہ عمل کا فیصلہ کریں گے۔
کرانتی کاری کسان یونین کے درشن پال کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اس تجویز کو مسترد کردیا ہے اور اب ہم آپس میں بات کریں گے کہ کیا بدھ کے روز مذاکرات میں شامل ہونا ہے یا نہیں؟ آخر اس اجلاس میں شریک ہونے کا مقصد کیا ہے؟‘
خیال رہے انڈیا کے دارلحکومت نئی دہلی کا گھیراؤ کرنے والے احتجاجی کسانوں کی کال پر انڈیا بھر میں منگل کو ایک روزہ ہڑتال کیا گیا۔
27 نومبر سے نافذالعمل نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کی وجہ سے ہزاروں کسانوں نے دارالحکومت میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ کسانوں کا احتجاج 2019  میں دوسری مرتبہ انتخابات جیتنے والی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت کے لیے بڑا چیلینج بن گیا ہے۔
کسانوں نے کئی گھنٹوں تک ملک بھر کی تمام بڑی سڑکوں اور ریلوے لائنوں کو بند رکھا۔ ریلوے کارکنان، ٹرک ڈرائیور اور اساتذہ یونین سمیت کئی سیاسی اور سماجی تنظیمیں کسانوں کے احتجاج کی حمایت کر رہی ہیں۔

شیئر: