Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ: ’ڈی ایچ اے کو شہریوں سے زمین حاصل کرنے کا اختیار نہیں‘

عدالت نے ڈی ایچ اے ایکٹ کو پرانے اور پہلے سے نافذ العمل قوانین پر مؤثر قرار دینے کو بھی غیر آئینی و غیرقانونی قرار دیا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
بلوچستان ہائی کورٹ نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کوئٹہ ایکٹ کی زمین کے حصول کے اختیار سمیت بعض شقوں کو آئین سے متصادم ہونے کی بنا پر کالعدم قرار دے دیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ڈی ایچ اے غیر سرکاری ادارہ ہے اسے شہریوں سے زمین حاصل کرنے کا اختیار نہیں۔
بدھ کو یہ فیصلہ بلوچستان ہائی کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے سنایا جس میں چیف جسٹس جمال مندوخیل ، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس عبدالحمید بلوچ اور جسٹس عبداللہ بلوچ شامل تھے۔
ڈی ایچ اے ایکٹ کواکتوبر2015 میں بلوچستان اسمبلی نے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور میں منظور کیا تھا۔
کوئٹہ کے وکیل کاشف کاکڑ و دیگر نے ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے لیے بلوچستان اسمبلی سے منظور کیے گئے قانون کی بعض شقیں آئین سے متصادم ہیں جس کی وجہ سے شہریوں کے بنیادی حقوق سلب ہورہے ہیں۔
درخواست گزاروں کا مؤقف تھا کہ ڈی ایچ اے سرکاری ادارہ نہیں مگر اس کے باوجود اس کے لیے بنائے گئے قانون کو پہلے سے موجود سرکاری اداروں کوئٹہ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اور بلوچستان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی سمیت تمام قوانین پر اوور رائڈ یعنی مؤثر قرار دیا گیا۔ لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کے تحت صرف سرکاری اداروں کو شہریوں سے زمین کے حصول کا اختیار ہے مگر بلوچستان اسمبلی نے ڈی ایچ اے کو یہ اختیار دیا جس کی بنیاد پر اتھارٹی شہریوں سے ان کی آبائی زمینیں زبردستی حاصل کررہی ہے۔
پانچ رکنی لارجر بنچ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد متفقہ فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ایکٹ کی شق 2 کیو، 6 بی ، شق 6  کی ذیلی شق ایک، 14  اور شق 11،  1973 کے آئین سے متصادم ہیں جس کی بنا پر اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
کالعدم قرار دیے گئے ان شقوں کے تحت ڈیفنس ہاﺅسنگ اتھارٹی کو کوئٹہ سمیت بلوچستان کے کسی بھی ضلع میں اراضی کے حصول کی اجازت تھی اور کسی بھی علاقے کو ڈی ایچ اے کا نوٹیفائی ایریا قرار دیا جاسکتا تھا۔
ان شقوں کے تحت ان مختص کردہ علاقوں میں کوئی بھی سرکاری و غیر سرکاری ادارہ کوئی ماسٹر پلان یا کوئی منصوبہ ڈی ایچ اے کے ایگزیکٹیو بورڈ کی اجازت کے بغیر نہیں شروع کرسکتا تھا۔

کالعدم قرار دیے گئے ان شقوں کے تحت ڈی ایچ اے کو بلوچستان کے کسی بھی ضلع میں اراضی کے حصول کی اجازت تھی (فوٹو: ٹوئٹر)

عدالت کا کہنا تھا کہ ڈی ایچ اے سرکاری ادارہ نہیں اس لیے اسے اراضی کے حصول کی اجازت غیر آئینی اقدام ہے۔ صرف وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوامی مفاد میں زمین حاصل کرسکتی ہیں۔ 2015 میں اس وقت کی حکومت کو یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ نجی یا غیرسرکاری ادارے کو زمین کے حصول کا اختیار دے۔
عدالت نے ڈی ایچ اے ایکٹ کو پرانے اور پہلے سے نافذ العمل قوانین پر مؤثر قرار دینے کو بھی غیر آئینی و غیرقانونی قرار دیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ صوبائی حکومت اور قانون سازوں نے آئینی طور پر سرکاری ادارے کے بجائے غیرسرکاری ادارے کو فوقیت دی۔ عدالت نے واضح کیا کہ قانون سازوں کو قانون سازی اور ترامیم کا اختیار حاصل ہے لیکن اسے آئین سے متصادم نہیں ہونا چاہیے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ جس طرح ڈی ایچ اے کے لیے قانون سازی ہوئی وہ اس وقت کی حکومت اور اراکین اسمبلی کی نااہلی اورعدم قابلیت ظاہر کرتی ہے۔

شیئر: