Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب کی جیلوں کے 120 سال پرانے رولز تبدیل ہوں گے

پنجاب کی جیلوں کے انتظام سے متعلق کُل ایک ہزار 250 رولز تھے۔ فوٹو: سوشل میڈیا
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حکومت نے اُن جیل رولز کو تبدیل کرنے کے لیے بل تیار کر لیا ہے جو صوبے میں سوا صدی سے نافذالعمل ہیں۔ قانون کے اس نئے مسودے کو محکمہ جیل خانہ جات، وزارت داخلہ، محکمہ قانون اور غیر سرکاری ادارے جسٹس پراجیکٹ پاکستان  نے دو سال میں تیار کیا ہے۔ نئے رولز کا نام پنجاب پرزن رولز 2020 رکھا گیا ہے۔  
رولز میں نیا کیا ہے؟ 
جیل قوانین کے تحت جیلوں کے تمام معاملات جیل رولز کے تابع ہوتے ہیں جن میں قیدی کا جیل میں داخل ہونے سے لے کر آزادی تک ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز شامل ہے۔
قیدی کو کیا سہولیات دی جائیں گی جن میں خوراک، صحت، ملاقاتیں اور ہر وہ چیز جو قیدی سے متعلقہ ہیں، رولز میں شامل ہوتی ہیں۔
نئے جیل رولز تیار کرنے والی کمیٹی میں حکومت کی نمائندگی کرنے والی ایم پی اے عائشہ چوہدری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ ایک انتہائی کٹھن کام تھا جو اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ اس سے پہلے ان رولز کو 1978 میں ایک دفعہ ٹھیک کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن کام آدھے میں ہی چھوڑ دیا گیا تھا۔ اب ہم نے ایک طرح سے تمام رولز کو اکیسویں صدی سے ہم آہنگ کر دیا ہے اس کمیٹی نے ایک صدی کا سفر طے کیا ہے۔‘ 
پنجاب کی جیلوں کے انتظام سے متعلق کل ایک ہزار 250 رولز تھے۔ اب ان کی تعداد بارہ سو انسٹھ ہو چکی ہے۔ تاہم اس میں کئی ایسے رولز ہیں جن کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے اور کئی ایسے ہیں جو نئے شامل کیے گئے ہیں۔  

پنجاب کی حکومت نے اُن جیل رولز کو تبدیل کرنے کے لیے بل تیار کر لیا ہے جو صوبے میں سوا صدی سے نافذالعمل ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

بیڑیاں اور کوڑے لگانا ختم: 
نئے رولز کے تحت اب جیلوں میں قیدیوں کو بیڑیاں نہیں لگائی جا سکیں گی۔ جسٹس پیس پراجیکٹ کی طرف سے کمیٹی میں نمائندہ ثنا فرخ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بیڑیاں لگانا مہذب دنیا میں ختم ہو چکا ہے۔ لیکن ہماری جیلوں میں اب بھی یہ پریکٹس کی جاتی ہے جو کہ ایک انتہائی غیر انسانی عمل ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ خطرناک قیدیوں کا بندوبست ان نئے رولز میں نہیں کیا گیا۔ بلکہ ایسے قیدیوں کو جدید طریقوں سے کنٹرول کیا جائے گا۔‘ 
جیل رولز سے قیدیوں کو سزا کے طور پر لگائے جانے والے کوڑوں کی سزا بھی ختم کر دی گئی ہے۔ ثنا فرخ کے مطابق ’کوڑوں کی سزا  1978 میں حدود آرڈیننس کی سزاؤں کے تناظر میں جیل رولز میں شامل کی گئی تھی۔ چونکہ اب یہ سزائیں متروک ہو چکی ہیں لہذا کوڑوں سے متعلق رولز کو بھی نکال دیا گیا ہے۔‘ 

'بیڑیاں لگانا مہذب دنیا میں ختم ہو چکا ہے۔ لیکن ہماری جیلوں میں اب بھی یہ پریکٹس کی جاتی ہے۔' فائل فوٹو: ان سپلیش

جیل رولز میں 1900 سے جاری ان اصطلاحات کو بھی ختم کر دیا گیا ہے جو قیدیوں سے متعلق استعمال ہوتی تھیں۔ مثال کے طور پر ذہنی امراض میں مبتلا قیدیوں کے لیے لفظ پاگل مکمل طور پر حذف کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح رولز میں سے مینٹل ہسپتال کی اصطلاح بھی ختم کر دی گئی ہے۔ اس کی جگہ نفسیاتی علاجگاہ رکھ دیا گیا ہے۔  
قیدیوں کے ایک دوسرے پر اختیارات کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ پہلے مختلف جرائم میں ملوث سرکاری افسران کو بیرکوں کے اندر دیگر قیدیوں کے اوپر گارڈ تعینات کر دیا جاتا تھا جو کہ باقاعدہ رولز کے مطابق تھا اب اس شق کو بھی مکمل طور پر ختم کردیا گیا ہے۔  
جیلوں میں انسانی قدریں: 
اب جیل میں قید ماں ملاقات کے لیے آنے والے بچے کو چھو بھی سکے گی۔ ثنا فرخ نے بتایا کہ ’اس سے پہلے کسی بھی قیدی ماں سے جب اس کے بچوں کو ملایا جاتا تھا توان کے درمیان ایک جالی کا فاصلہ ہوتا تھا جو کسی بھی لحاظ غیر انسانی تھا اس رول کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے اور اب جیل حکام کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ ماں کو اپنے بچوں سے جسمانی طور پر ملنے دے تاکہ وہ ایک دوسرے کا لمس محسوس کر سکیں۔‘ 
اسی طرح کم عمر قیدیوں کے لیے بھی نئی اصلاحات لائی گئی ہیں کہ ان کی تعلیم مکمل پروفیشنل اساتذہ کے ذریعے ہوگی اور کوشش کی جائے گی کہ ان کو جیل سے الگ ماحول فراہم کیا جائے۔ حکومت کے ووکیشنل تعلیمی اداروں کو جیلوں میں مکمل رسائی ہو گی تاکہ وہ بچوں کو ایسی تعلیم دے سکیں جو جیل کے باہر ان کے لیے روزگار کے حصول کا باعث بنے۔  

جیل میں صحت کے نظام کو نئے زاویوں پر استوار کرنے کے لیے بھی رولز تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ایک سو بیس سالہ پرانا وہ رول بھی بدل دیا گیا ہے جس میں آزاد ہونے والے قیدی کو آزادی کے وقت کچھ رقم دی جاتی تھی۔ پرانے رولز کے مطابق اگر قیدی کا گھر جیل کی آٹھ کلو میٹرز کی حدود میں تو اس کو کچھ نہیں دیا جاتا تھا آٹھ کلو میٹرز کے بعد ہر کلومیٹر کا ایک روپیہ دیا جاتا تھا۔ اب یہ رقم بڑھا کر دوہزار روپے کر دی گئی ہے۔ تاکہ آزاد ہونے والا شخص آرام سے اپنے گھر پہنچ سکے۔  
جیل میں صحت کے نظام کو نئے زاویوں پر استوار کرنے کے لیے بھی رولز تبدیل کر دیے گئے ہیں اب جیل کے مستقل ڈاکٹر کے علاوہ بھی محکمہ صحت کے دو ڈاکٹرز کو ہر جیل کی صحت کی ٹیم کا حصہ بنا دیا گیا ہے یہ میڈیکل ٹیم آزادانہ حیثیت کی ہو گی۔ اور اس میں ایک مستقل ماہر نفسیات بھی ہوگا اور قیدیوں کی ذہنی صحت کو بھی اب رولز کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔  

120 سالہ پرانا وہ رول بھی بدل دیا گیا ہے جس میں آزاد ہونے والے قیدی کو آزادی کے وقت کچھ رقم دی جاتی تھی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

عائشہ نواز چوہدری نے بتایا کہ جیل کے اندر احتساب کا عمل بھی رولز کے ذریعے شروع کر دیا ’محکمہ جیل کی مشاورت سے اب سپرنٹنڈٹ جیل کی وہ اجارہ داری ختم ہو جائے جیسے وہ ایک بادشاہ تھا۔ اب شکایات کا ایسا نظام وضع کیا گیا ہے کہ کوئی بھی قیدی بلا خوف اپنے ساتھ ہونے والی کسی بھی زیادتی کا بلا خوف و خطر محکمے کو بتا سکتا ہے اور اس کے سدباب کا نظام بھی اتنا ہی مضبوط ہے۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ اگلے اسمبلی اجلاس میں یہ بل پیش کر دیا جائے گا۔ اور امید ہے کہ اپوزیشن بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کرے گی کیوں کہ یہ سراسر انسانی حقوق کا معاملہ ہے سیاسی نہیں۔

شیئر: