دہلی کی ایک عدالت نے دو ہفتے قبل کشمیر کی علیحدگی پسند رہنما اور دخترانِ ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی اور ان کی دو ساتھیوں پر انڈیا کے خلاف جنگ کرنے، ملک سے غداری کرنے اور ملک میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے ہیں۔
دوسری جانب گذشتہ روز پاکستان میں انسانی حقوق کی وزیر نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کشمیری رہنما کی رہائی میں اپنا کردار ادا کرے۔
انڈیا کی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق 21 دسمبر 2020 کو دہلی کی خصوصی عدالت کے جج پروین سنگھ نے حکم دیا تھا کہ آسیہ اندرابی اور ان کی ساتھی صوفی فہمیدہ اور ناہیدہ نسرین کے خلاف تعزیرات ہند اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (پو پی پی اے) کے تحت مقدمہ قائم کیا جائے۔
مزید پڑھیں
-
کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا صدارتی حکم نامہNode ID: 428211
-
’کشمیر میں سب کچھ پہلے کی طرح ہی ہوگا‘Node ID: 428666
خیال رہے کہ ان خواتین کو دو سال قبل اپریل سنہ 2018 میں ہی گرفتار کیا جا چکا ہے۔ عدالت نے ان پر تعزیرات ہند کی دفعات 120-بی (مجرمانہ سازش)، 121 (حکومتِ ہند کے مخالف جنگ آزما ہونا)، 121-اے (حکومت ہند کے خلاف جنگ کی سازش)، 124-اے (غداری)، 153 اے (مختلف فرقوں میں منافرت پھیلانے)، 153 بی (ملک کی سالمیت کے خلاف کام کرنے) اور 505 (عوام میں شرانگیز بیان) کے تحت مقدمہ چلانے کا حکم دیا ہے۔
اس کے علاوہ یو پی پی اے کی مختلف دفعات کے تحت بھی مقدمہ قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پاکستان نے کہا ہے آسیہ اندرابی پر بے جا اور من گھڑت الزامات لگائے گئے ہیں اور ان کی جان کو خطرہ ہے۔
آسیہ اندرابی انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی ایک رہنما ہیں جو گذشتہ چار دہائيوں سے علیحدگی پسندوں کے ساتھ ہیں۔
وہ کشمیر کی خواتین تنظیم دخترانِ ملت کی بانی ہیں اور ان کی پارٹی علیحدگی پسند تنظیم حریت کانفرنس کا حصہ رہی ہے۔
سنہ 1962 میں ڈاکٹر والدین کے گھر میں پیدا ہونے والی آسیہ اندرابی نے بائیو کیمسٹری میں گریجویشن کی جبکہ ذہن میں انقلابی تبدیلی کے بعد عربی زبان و ادب میں کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔

انھوں نے سنہ 1990 میں عاشق حسین فکٹو سے شادی کی جو شادی کے دو سال بعد سے ہی قید میں ہیں۔
آسیہ اندرابی کا کہنا ہے کہ وہ ایک حوصلہ مند لڑکی تھیں لیکن بیرون میں ان کی پڑھنے کی خواہش نہ پوری ہونے کے سبب وہ صدمے میں آ گئیں اور انھوں نے جب مائل خیرآبادی کی کتاب ’خواتین کی باتیں‘ پڑھیں تو انھیں حوصلہ ملا۔
اس کتاب میں مسیحی خاتون مریم جمیلہ کی کہانی نے انھیں بہت متاثر کیا جنھوں نے مذہب کے مطالعے کے بعد اسلام قبول کیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ مریم جمیلہ کی کہانی نے ان کی آنکھیں کھول دیں اور وہ اسلام پر عمل پیرا ہو گئیں۔
انھیں نیویارک میں پلنے بڑھنے والی یہودی خاتون مارگریٹ مارکس کے قبول اسلام نے بہت متاثر کیا اور انھوں نے ان کی مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا۔ مارکس ہی مریم جمیلہ بنیں۔

آسیہ اندرابی نے سماج میں پھیلی برائی کو دور کرنے کے لیے دختران ملت نامی تنظیم کی بنا ڈالی لیکن پھر وہ علیحدگی پسند تحریک سے وابستہ ہو گئیں۔
انڈیا کی ایک ویب سائٹ پرنٹ میں شائع ایک مضمون کے مطابق دس سال کی عمر میں ہی انھیں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ایک مجاہد سے شادی کریں گی۔ لیکن انھوں نے انڈیا کے قومی تفتیشی ادارے این آئی اے کو تفتیش کے دوران بتایا کہ ان میں ساری تبدیلی مریم جمیلہ کے بارے میں پڑھنے کے بعد آئی اور انھوں درس گاہ تعلیم القران کی بنیاد ڈالی تاکہ اسلامی تعلیمات کا فروغ ہو اور اسے کشمیریوں میں عام کیا جا سکے۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق اہل حدیث مکتبۂ فکر سے ہے جسے عام طور پر قدرے سخت گير تصور کیا جاتا ہے۔
