سعودی عرب میں کھڈی سے تیار کردہ قدیم ترین روایتی دستکاری
جی 20 کا لوگو بھی ایسی آرائشی شکل کا تھا جو ’’السدو‘‘ کی عکاسی کرتا تھا۔(فوٹو عرب نیوز)
لکڑی کے دستی تکلوں پر تیار کردہ،مضبوطی سے کاتے گئے سرخ ، سیاہ اور سفید سوت ،سعودی عرب میں کھڈی پر کپڑا تیار کرنے کی قدیم ترین روایات میں سے ایک ہے جو معاشرتی زندگی کا اہم پہلو ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اس روایتی کپڑےکو سدو کہا جاتا ہے اس کی بنائی مملکت کی قدیم قبائلی دستکاریوں میں سے ایک ہے۔
صحرائی ماحول سے متاثر جزیرہ نمائے عرب کی بدو خواتین نسل در نسل صحرا کے حالات اور دستیاب خام مال مثلاًبھیڑ کی اون یا اونٹ کے بالوں کو استعمال میں لا کر اشیا تیار کرتی رہی ہیں جن میں مختلف رنگوں اور نمونوں والے خیمے، قالین، چٹائیاں شامل ہیں۔
عرب ثقافت و دستکاری کے لئے مخصوص سماجی ادارے ’’اتھرنا‘‘میں مطالعے و تحقیق کے شعبے کے ڈائریکٹرڈاکٹر دلایل القحطانی نے کہا کہ ’’السدو‘‘، اون، بال یا پشم کا سوت فرشی لوم پر افقی طور پر بچھا کر بنایا جاتا ہے تاکہ اسے ایسی مختلف شکلوں اور رنگوں میں تیار کیا جا سکے جو دیہی علاقوں میں بدو کمیونٹی کی روز مرہ ضروریات کے مطابق ہوں۔
سدو ایسی دستکاری ہے جس کے لئے اختراعی مہارت اور سخت کوشش درکار ہوتی ہے
اس دستکاری کے لیے خام مال کو ایک نئی شے میں منتقل کرنے کے لئے بہت محنت کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی پیچیدہ دستکاری ہے جس میں ہاتھوں کی انتہائی درست حرکت درکار ہوتی ہے اور تیار ہونے والی مصنوعات ہمیشہ انتہائی خوبصورت ڈیزائن کی حامل ہوتی ہے۔
یہ دستکاری زیادہ تر مملکت کے وسطی اور شمالی صحرائی خطوں اور کویت میں پائی جاتی ہے۔ اسے حال ہی میں یونیسکوکے غیر منقولہ ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیاہے۔
ڈاکٹر دلایل القحطانی نے کہا کہ سعودی نمونہ تخلیق کرنے کے لئے کارکن کو مہارت کے ساتھ کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
سب سے پہلے جانور کے بال مونڈنے کے بعد انہیں ہلانے اور کنگھی کرنے سے قبل صاف کیاجاتا ہے۔ اس کے بعد انہیں انار کی جلد اور درخت کی چھال سے نکالے گئے رنگ سے رنگاجاتا ہے اور آخر کار چرخے پر لپیٹ دیاجاتا ہے۔
کھجور کے درختوں سے بنائی گئی لوم بدو اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ وہ آباد ہونے کے لئے آبی نخلستان کی تلاش میں صحراؤں میں گھومتے تھے تاہم گزرتے وقت اور جدید ترقی کے ساتھ کئی خاندان آباد ہو گئے مگر اس روایت کو زندہ رکھا گیا ہے۔
سدو دستکاری کی جانب توجہ میں گزشتہ دو دہائیوں سے اضافہ ہو تا رہا ہے۔ ڈاکٹر دلایل نے کہا کہ سال 2020 میں جی 20 کا لوگو بھی ایسی آرائشی شکل کا تھا جو ’’السدو‘‘ کی عکاسی کرتا تھا۔
کئی تنظیمیں اور مراکزسدو مصنوعات کی تیاری سے متعلق تربیتی کورسزکراتی ہیں۔اب اس کی تیاری میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیاجانا چاہئے۔دستکاروں کو ڈیزائنرز کی جانب سے تربیت فراہم کی جانی چاہئے جو انہیں بتائیں کہ کمیونٹی اور سیاحوں کو راغب کرنے کے لئے سدو مصنوعات کو جدید کیسے بنایا جائے۔
سعودی فیشن ڈیزائنر اور ملبوسات کے برانڈ’’ہندمی‘‘ کے بانی محمد خوجہ نے اپنی ایک کلیکشن میں سدو کے نمونے استعمال کئے۔
انہوں نے سدو بافی کو مملکت کا گوہرِ ثقافت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی والدہ کا تعلق الاحساسے تھاجس سے میں بہت متاثر ہوں۔میں نے اپنے اجداد کے پس منظرکو تلاش کر کے اسے اپنے ڈیزائنز میں شامل کیا۔
خوجہ نے کہا کہ میری والدہ کا آبائی شہر الاحسا تاریخ اور ورثے کے حوالے سے مالا مال ہے۔ میں ورثے کے مختلف عناصر کے بارے میں تجسس میں رہتا اورمعلومات حاصل کرنے میں مگن رہتا۔
انہوں نے کہا کہ سدو کے نمونے سعودیوں کے لئے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ سدو میں ہر نمونہ یا ہر علامت ابتدائی عرب اور بدوؤں کی زندگی کے عنصر کی نمائندگی کرتی ہے۔
میرے خیال میں اسے ایک مرتبہ عالمی سامعین کے ساتھ شیئر کردیا جائے تو اس کی شہرت میں اضافہ ہوگا۔
خوجہ نے دیگر ڈیزائنرز سے بھی کہا کہ وہ سدو ڈیزائن کے استعمال پر غور کریں تاہم ضروری نہیں کہ وہ اس سارے کی نقل کریں بلکہ وہ اپنے انداز میں اس کی تشریح کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب میں نے اسے اپنی کلیکشن کے سیزن 2 میں شامل کیا تواسے جدید فارمیٹ میں لاگو کیا اس میں ایسے ٹکڑے شامل کئے جو ’’راک اینڈ رول‘‘ سے متاثر تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ ثقافتی گوہر میسر ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ان کا استعمال ہماری دلچسپی کو ہمارے ڈیزائن میں ابھاردے گا اور ہماری ثقافتی اور ڈیزائن کی شناخت کو ایک شکل دے گا۔