بہت سے لوگ اس انتظار میں تھے کہ نئے پاکستان کا تعلیم کا ویژن آخر ہوگا کیا؟ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے اپنی انتخابی مہم میں جو نعرہ سب سے زیادہ لگایا وہ تھا تعلیمی نظام کو بہتر کرنا اور صحت کی سہولتیں سب تک پہنچانا۔
وزیر اعظم عمران خان کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ’قومیں سڑکیں اور پل بنانے سے ترقی نہیں کرتیں بلکہ تعلیم پر پیسہ خرچ کرنے سے ترقی کرتی ہیں۔‘
ایسے میں جب 2018 کے عام انتخابات کے بعد اقتدار تحریک انصاف کے حصے میں آیا تو بہت سے لوگ اس انتظار میں تھے کہ نئے پاکستان کے تعلیم کا ویژن آخر کیا ہوگا؟
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے اردو نیوز سے ایک خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ان کی حکومت ’یکساں نظام تعلیم‘ کا وعدہ پورا کرنے کے قریب ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے یکساں نصاب تعلیم کا فیز ون مکمل کر لیا ہے جس میں پہلی سے پانچویں جماعت تک کا نصاب یکساں بنا دیا گیا ہے۔
’اب یہ 2021 شروع ہوچکا ہے۔ پہلے اس کا ملک بھر میں عمل درآمد مارچ میں ہونا تھا کیونکہ تعلیمی سال مارچ سے شروع ہوتا تھا اب یہ اگست تک چلا گیا ہے۔ لیکن اسی سال نچلی جماعتوں پر یہ لاگو ہو جائے گا۔‘
شفقت محمود نے بتایا کہ ’اسی طرح چھٹی سے دسویں تک کا یکساں نصاب اپنے تکمیل کے مراحل میں ہے اور اس کو بھی سال 2022 میں لاگو کر دیا جائے گا۔ 2023 تک ہماری حکومت ہے تو تب تک ہم اپنا تیسرا اور آخری مرحلہ بھی مکمل کر لیں گے۔ اور ملک کے طول و عرض میں ہر سرکاری اور غیر سرکاری سکول حتی کے مدرسے میں ایک ہی طرح کا نصاب پڑھایا جا رہا ہو گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’الیکشن جیتنے کے بعد یہی ہمارا قوم سے وعدہ تھا جس کو ہم پورا کرنے جار رہے ہیں۔‘
یونیورسٹیوں کی صورتحال
تحریک انصاف کی تعلیم کے حوالے سے دوسری پالیسی نئی یونیورسٹیوں کے قیام کی سامنے آئی تھی۔
جنوری 2020 میں پنجاب کے وزیراعلی نے ایک پالیسی بیان جاری کیا تھا کہ صوبے میں آٹھ نئی یونیورسٹیز کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جن میں ننکانہ صاحب، مری، لیہ ، ڈی آئی جی خان، بھکر، میاںوالی، چکوال اور راولپنڈی شامل ہیں۔
پنجاب کے محمکہ ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ایک اعلی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اس وقت چکوال، جھنگ، میانوالی، کوہسار اور ساہیوال کی یونیورسٹیز کا کام مکمل ہو چکا ہے اور اس سال ان میں کلاسز کا کام شروع ہو رہا ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’نئی یونیورسٹیز کے حوالے سے پنجاب کے محکمہ ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس ایک بلیو پرنٹ موجود ہے۔ جس کے مطابق 2030 تک پنجاب کے ہر ضلع کی اپنی یونیورسٹی ہوگی۔ تاہم اس کا انحصار سیاسی حکومتوں کی فیصلہ سازی کی قوت پر بھی ہو گا کہ وہ اس حوالے سے کتنا بجٹ رکھتے ہیں کیونکہ یہ کام پیسے کے بغیر تو ہو نہیں سکتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا فرق اس پر بھی پڑتا ہے کہ کون سے اضلاع میں پہلے یونیورسٹیاں بنیں گی۔ جیسے موجودہ حکومت کی زیادہ توجہ جنوبی پنجاب اور پسماندہ اضلاع کی طرف زیادہ ہے۔ محکمے نے اپنا ویژن حکومت کو دے رکھا ہے۔ اب یہ ان پر ہی منحصر ہے۔‘
انہوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ ’ایسا نہیں ہے کہ نئی یونیورسٹیز کا تصور یہ حکومت لے کر آئی ہے۔ پچھلی حکومت میں جب اس محکمے کا قیام عمل میں آیا تھا تو اسی وقت ہی ایک روڈ میپ بن گیا تھا کہ ہر ضلع کو یونیورسٹی دیے بغیر آپ تعلیمی نظام پر بوجھ کو کم نہیں کرسکتے۔‘
محمکہ ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے بقول ’حکومتیں صرف اس روڈ میپ پراپنی مرضی سے عمل درآمد کرتی ہیں اس میں ان کے اپنے سیاسی مسائل بھی ہوتے ہیں اور سیاسی نعرے بھی۔ بہت سے کام پہلے ہی پائپ لائن میں تھے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر بجٹ کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس حکومت نے نئی یونیورسٹیز کے معاملے پر پچھلی حکومت کی نسبت قدرے زیادہ بجٹ رکھا ہے۔ جیسا کہ وزیر اعظم نے پچھلے مہینے حافظ آباد یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ بھی اس روڈ میپ کا حصہ ہے جو پہلے سے طے ہے۔ لیکن حافظ آباد کو یونیورسٹی ملنا کب تھی یہ طے نہیں تھا۔‘
وائس چانسلرز کا معاملہ
ایک اور معاملہ جس سے تحریک انصاف کی تعلیمی شعبے میں کارکردگی کو جانچا جا سکتا ہے وہ ہے یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز کی تعیناتی۔
سال 2017 اور 2018 میں ایک ایسا وقت بھی آیا کہ پنجاب کی 27 یونیورسٹیز میں سے 17 کے وائس چانسلرز ہی نہیں تھے۔ لیکن اب سات یونیورسٹیز ہیں جن کے وائس چانسلرز نہیں ہیں۔
پنجاب کی یورنیورسٹیز کے چانسلر گورنر پنجاب محمد سرور نے اس بارے میں استفسار پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم نے وائس چانسلرز والے معاملے کو حل کر دیا ہے۔ سات یونیورسٹیز جن کے ابھی وائس چانسلرز نہیں ہیں ان میں زیادہ تر وہ ہیں جو کہ نئی بنی ہیں ہم نے ان کے لیے اشتہار دے دیا ہے۔ جنوری کے مہینے میں ان یونیورسٹیز کے بھی اپنے وائس چانسلرز ہوں گے۔‘