کیا پاکستان میں کورونا کی دوسری لہر کا زور ٹوٹ رہا ہے؟
کیا پاکستان میں کورونا کی دوسری لہر کا زور ٹوٹ رہا ہے؟
جمعہ 15 جنوری 2021 6:10
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
پاکستان کے چند شہروں میں کورنا مثبت کیسز کی تعداد ابھی بھی زیادہ ہے۔ فوٹو اے ایف پی
عالمی ادارہ صحت اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی) کے اعداد و شمار دیکھیں تو 18 دسمبر کے بعد پاکستان میں کورونا کے روزانہ سامنے آنے والے کیسز میں کمی آئی ہے۔
ان حالیہ اعداد و شمار سے امید پیدا ہوئی ہے کہ شاید ملک میں کورونا کی دوسری لہر بھی زوال کی طرف گامزن ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے بتایا کہ ’پاکستان میں کورونا کی دوسری لہر اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور اب کیسز کمی کی طرف جا رہے ہیں۔‘
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں سے کورونا کیسز اتنی تیزی سے کم نہیں ہو رہے جتنی تیزی سے عام طور پر پیک کے بعد کمی واقع ہوتی ہے۔ گویا کیسز کی تعداد ایک جگہ آ کر رکی ہوئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر فیصل نے عوام سے اپیل کی ہے کہ ’فی الحال ریلیکیس ہونے کی گنجائش نہیں ہے اور لوگوں کو چاہیے کہ ابھی بھی ایس او پیز پر مکمل عمل درآمد جاری رکھیں۔‘
ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ زندگی کو مکمل معمول پر آنے میں آئندہ کئی ماہ لگ سکتے ہیں اس لیے عوام کو خطرے سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔
اعداد و شمار مثبت ہیں
اچھی خبر یہ ہے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے اعداد و شمار کے مطابق بھی دسمبر کے پہلے ہفتے کے بعد ملک میں کورونا کیسز مثبت آنے کی شرح میں کمی آئی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے پاکستان سے متعلق ڈیٹا کے مطابق دسمبر کے پہلے ہفتے میں ملک بھر میں پازیٹو کیسز کی شرح 9 کے قریب تھی تاہم 20 دسمبر کے بعد اس میں کمی واقعہ ہوئی ہے اور ملک بھر میں یہ شرح چار سے پانچ فیصد کے درمیان تک پہنچ گئی ہے۔
ڈیٹا کے مطابق چند شہروں میں شرح اب بھی زیادہ ہے، مثلاً کراچی میں ابھی بھی ایک سو کورونا ٹیسٹس میں سے 14 اعشاریہ 6 فیصد کا رزلٹ مثبت آتا ہے، جبکہ پشاور میں یہ شرح 9 اعشاریہ 9 فیصد ہے اور لاہور میں یہ 6 فیصد کے قریب ہے۔
اسلام آباد، راولپنڈی، ملتان، گوجرانولہ میں یہ شرح صرف 2 سے 3 فیصد تک ہے۔
این سی او سی کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اس وقت بھی 33 ہزار کورونا کے ایکٹو کیسز ہیں جبکہ کل کیسز کی تعداد پانچ لاکھ 12 ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ اب تک ملک میں کورونا سے 10 ہزار 800 سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔
این سی او سی کے اعداد و شمار بھی مستقبل کے لیے کسی حد تک مثبت تصویر پیش کرتے ہیں کیونکہ 18 دسمبر کو ملک میں 3 ہزار 179 کیسز رپورٹ ہوئے تھے، اس کے بعد سے اب تک نئے کیسز کی تعداد ایک ہی مرتبہ تین ہزار سے زیادہ ہوئی ہے اور روزانہ کی اوسط اڑھائی ہزار تک آ چکی ہے۔
اسلام آباد میں کورونا محدود
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد کے ڈسٹرک ہیلتھ آفیسر ضعیم ضیا نے بتایا کہ ’اسلام آباد میں کورونا کی لہر کے اثرات کو محدود کیا گیا ہے، ایک سو ٹیسٹس میں سے دو فیصد سے کم کا نتیجہ مثبت آتا ہے۔‘
ان کے بقول ’ملک بھر کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو ابھی کورونا کی دوسری لہر کے خاتمے میں وقت لگے گا۔‘
ضعیم ضیا کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کی انتظامیہ نگرانی کے بہتر نظام کی وجہ سے کورونا کی لہر کو قابو رکھنے میں کامیاب ہوئی ہے، عوام کو چاہیے کہ وہ ماسک پہنیں اور دیگر احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد جاری رکھیں۔
کورونا لہروں میں نہیں آتا احتیاط ضروری ہے
مثبت اعداد و شمار کے باوجود ماہرین احتیاط کا مشورہ دے رہے ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم سمجھتے ہیں کہ کورونا کو لہروں میں ماپنا مناسب نہیں ہے، یہ ایک مستقل رجحان ہے جو کبھی کم ہو جاتا ہے اور کبھی زیادہ تاہم اس کا انحصار ایس او پیز کی پابندی پر ہے۔
’کورونا کے مکمل خاتمے کے لیے کم ازم تین سال تک انتظار کرنا پڑے گا جب دنیا کی آبادی کے 75 فیصد کو ویکسین لگ جائے گی جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں ساڑھے پندرہ کروڑ لوگوں کو ویکسین لگ جائے۔‘
ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ کاروبار زندگی احتیاطی تدابیر کے ساتھ جاری رہنا چاہیے اور سکول ضرور کھلنے چاہییں تاکہ بچوں کی پڑھائی کا نقصان نہ ہو۔
البتہ انہوں نے ریسٹورنٹس کے حوالے سے کہا کہ صرف تیس فیصد نشستوں کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ سماجی فاصلے کی پابندی کی جا سکے۔