Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیب کا آمدن سے زائد اثاثوں کا قانون کیا ہے؟

نیب کی جانب سے متعدد اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کیسز بنائے گئے ہیں (فوٹو: اے پی پی)
پاکستان میں ویسے تو احتساب کا موسم جاری ہے، یہ الگ بات ہے کہ بظاہر اپوزیشن اس ’سخت‘ موسم کی زیادہ شکار دکھائی دیتی ہے۔ یہ سمجھنا اس لیے بھی مشکل نہیں کہ اس وقت سب سے زیادہ سیاستدان کس سیاسی جماعت کے گرفتار ہیں۔
یقیناً اس میں پہلے نمبر پر مسلم لیگ ن ہے اور دوسرے نمبر پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں ہیں۔ اس احتسابی موسم کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ایک بات جو سب سے زیادہ مشاہدے میں آتی ہے وہ یہ کہ نیب کے بنائے جانے والے مقدمات میں اکثریت آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات کی ہے۔ 
سابق وزیراعظم نواز شریف کا کیس ہو، سندھ اسمبلی کے سپیکر آغا سراج درانی کو نیب نے حراست میں لیا ہو، پاکستان کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی دوبارہ گرفتاری ہو، خواجہ سعد رفیق ہوں یا پھر حال میں گرفتار ہونے والے خواجہ آصف کی ہو سب میں ایک ہی قدر مشترک ہے کہ نیب نے ان پر آمدن سے زائد اثاثہ جات کے مقدمات درج کیے۔ 

یہ مقدمہ اصل میں ہوتا کیا ہے؟

قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے اپنے قانون جس کے تحت یہ ادارہ وجود رکھتا ہے اسے نیشنل اکاؤنٹیبلیٹی آرڈیننس 1999 کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس آرڈیننس کی شق نو (اے)(وی) کے مطابق آمدن سے زائد اثاثوں کی تعریف کچھ یوں ہے ’کوئی بھی شخص جو سرکاری عہدے پر فائز ہو، یا کوئی دوسرا شخص جس نے کرپشن کی ہو یا کرپٹ طریقے استعمال کیے ہوں۔ وہ شخص یا اس کے زیر کفالت افراد یا بے نامی دار، کسی ایسی جائیداد کی ملکیت یا قبضہ رکھیں یا واپس نہ لیے جانے والی پاور آف اٹارنی رکھیں، اور یہ (اثاثے) اس کی معلوم آمدن سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔‘ 
اس تعریف کے مطابق قانون نیب کو اختیار دیتا ہے کہ وہ ایسے افراد سے نہ صرف پوچھ گچھ کر سکتا ہے بلکہ ان کے خلاف ریفرنس بنا کر انہیں سزا بھی دلوا سکتا ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف بھی آمدن سے زیادہ اثاثہ جات کیس کے مقدمات درج ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن بات اتنی بھی سادہ نہیں ہے جتنی مندرجہ بالا شق میں بیان کی گئی ہے۔
پاکستان کی تقریبا تمام بڑی عدالتوں نے اس آرٹیکل نو کی قانونی تشریح کی ہے۔ جس سے اس قانون کے اطلاق کو مزید واضح کر دیا گیا ہے۔ 
لاہور ہائی کورٹ کے سابق سیکرٹری جنرل اور نیب کیسز پر دسترس رکھنے والے وکیل، ایڈوکیٹ اسد منظور بٹ کہتے ہیں کہ ’یہ درست بات ہے کہ نیب اپنے قانون میں سب سے زیادہ استعمال اسی شق نمبر نو کا ہی کرتا ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس قانون میں کوئی نقص ہے۔ اگر احتساب کے پوائنٹ سے دیکھا جائے تو دنیا بھر میں یہ قانون موجود ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کوئی اس قانون کو استعمال کیسے کرتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس قانون کو غیر ضروری طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے ’ہمارے ہاں تو اس کو وچ ہنٹنگ یا مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے اس پر بالکل واضح ہیں کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات میں پہلے ثبوت اکھٹے کرنا نیب کا کام ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’محض اثاثے ہونا جرم نہیں۔ جرم یہ ہے کہ غیر قانونی ہونے کے ثبوت بھی موجود ہیں۔ لیکن یہاں تو پہلے بندہ پکڑ لیتے ہیں اس کے بعد اسے کہتے ہیں اپنے اثاثوں کی تفصیل دو اور پھر اس کے اوپر سر جوڑ کے بیٹھتے ہیں کہ اس میں یہ غیر قانونی ہے اور یہ نہیں۔‘
نیب کے سابق پراسیکیوٹر جنرل عرفان قادر سمجھتے ہیں کہ آمدن سے زائد اثاثے کا مقدمہ بنانے کی روایت نیب بننے سے بھی پہلے کی ہے۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’یہ کہانی سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور سے شروع ہوتی ہے انہوں نے احتساب ایکٹ میں یہ شق ڈلوائی، اس کے بعد پرویز مشرف نے ابھی اس شق کو نیب قانون کا حصہ بنایا۔ بدقسمتی سے یہ قانون اس بات کی وضاحت نہیں کرتا کہ آمدن سے زائد کتنی رقم ہو گی تو اس قانون کا اطلاق ہو گا؟ آپ کے پاس دس روپے سے دس ارب زیادہ ہوں تو اس قانون کو بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔‘

اپوزیشن رہنما شہباز شریف نیب کی تحویل میں ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

عرفان قادر کے مطابق ’میں جب پراسیکیوٹر جنرل تھا تو ایک 21 ویں گریڈ کے ریٹائرڈ کلکٹر کسٹم کا کیس میرے سامنے آیا جس پر الزام تھا کہ اس کا ڈی ایچ اے میں ایک گھر ہے جس کی مالیت اس کی زندگی کی تنخواہوں سے ایک کروڑ روپے زیادہ ہے۔ میں نے اس کیس کو چلانے سے انکار کر دیا تھا۔ کہ اس طرح تو پاکستان کا ایک بھی افسر جیل کے باہر نہیں رہے گا۔‘
عرفان قادر کہتے ہیں کہ ’میں یہ بات پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ نیب کے پاس 70 سے 75 فی صد کیس جعلی ہیں۔ میں نے خود100 کیس نکال کے ان کا مطالعہ کیا تھا تو اس میں 70 کیس مجھے غیر ضروری لگے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے این آر او کے کیس میں کھل کر این آر او کی حمایت کی تھی۔ اگر اس وقت سپریم کورٹ کے جج بھی بے ترتیب طریقے سے کوئی 100 کیس نکال کر پڑھ لیتے تو سب پر واضح ہو جاتا کہ یہ چل کیا رہا ہے۔ لیکن بدقمستی سے ایسا نہیں ہوا۔‘
عرفان قادر جو کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایڈہاک جج بھی رہے ہیں اور پیپلزپارٹی کے دور میں وہ اٹارنی جنرل آف پاکستان کے عہدے پر بھی فائز رہے ہیں کا ماننا ہے کہ سیاسی اختلافات کی وجہ سے اس قانون میں ترمیم  نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے اس قانون کا اتنا بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔ اردو نیوز نے اس حوالے سے نیب کے ترجمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی کہ ان اس بات پر موقف لیا جائے لیکن ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

شیئر: