شامی قیدیوں کی ترکی منتقلی، ہیومن رائٹس واچ کی مذمت
ترکی قبضہ کیے جانے والی علاقے کو انتظامی طور پر اپنا علاقہ تصور کرتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تظیم ہیومن رائٹس واچ نے 63 گرفتار شامی قیدیوں کو غیرقانونی طور پر ترکی منتقل کرنے کی مذمت کی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ ترکی اور سیرین نیشنل آرمی نے شامیوں کو گرفتار کیا اور پھر انہیں ترکی منتقل کیا۔
تنظیم نے ترکی پر چوتھے جنیوا کنونشن کے رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شمال مشرقی شام میں قبضہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 کے تحت ’کسی فرد یا بڑی تعداد میں لوگوں کی زبردستی منتقلی اور مقبوضہ جگہ سے ان کو ڈی پورٹ کرکے اپنے علاقے میں لے جانا منع ہے۔‘
ترکی نے گذشتہ برس شمال مشرقی شام کے علاقے راس العین سے اکتوبر اور دسمبر کے درمیان 63 افراد کو ترکی میں حراستی مراکز میں منتقل کیا جن میں کرد اور عرب شہری شامل تھے۔
ان شہریوں پر الزام ہے کہ انہوں نے علاقائی خود مختاری کو داو پر لگایا، لوگوں کا قتل کیا اور دہشت گرد تنظیم وائے پی جی میں شمولیت اختیار کی۔
گذشتہ برس اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے ترکی کی طرف سے قبضے میں لیے گئے علاقے راس العین میں ہونے والے جرائم کے بارے میں وارننگ جاری کی تھی۔
ترکی قبضہ کیے جانے والی علاقے کو انتظامی طور پر اپنا علاقہ تصور کرتا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے پاس دستیاب دستاویزات کے مطابق حراست میں لیے گئے افراد پر الزام ہے کہ وہ وائے پی جی کے ساتھ مل کر لڑتے رہے ہیں۔ تاہم ان افراد کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہتھیار نہیں اٹھائے تھے۔
ترکی پی وائے ڈی کو دہشت گرد قرار دیتا ہے اور اسے وائے پی جی کا سیاسی ونگ سمجھتا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ گرفتار کیے گئے افراد کی تعداد دو سو کے قریب ہو۔