Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت کی بدحواسیاں

اپوزیشن میں مارچ میںلانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سنیچر کی شام اسلام آباد میں جاتی سردیوں کے پرسکون اور طویل ویک اینڈ پر ملکی سیاست میں ایک بھونچال پیدا ہوا۔ ایوان صدر سے سینیٹ الیکشن کے حوالے سے ایک آرڈیننس جاری ہوا جو فورا لاگو بھی ہے مگر سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط بھی ہے۔ ماہرین بھی اس کی ٹائمنگ اور مندرجات پر حیران ہیں۔
سینیٹ کا الیکشن جو اپوزیشن کی کمزوری اور حکومت کے لیے کامیابی کا موقع سمجھا جا رہا تھا وہ صرف حکومتی بدحواسیوں کا ایک مظاہرہ بنتا جا رہا ہے۔ پہلے سپریم کورٹ میں اوپن الیکشن کے لیے باقاعدہ صدارتی رفرینس داخل کیا گیا جس پر ابھی تک رپورٹ ہونے والے تاثرات ہرگز حوصلہ افزا نہیں ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ایک آئینی ترمیم بھی پیش کر دی گئی جس کے پاس ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے، اور اب گذشتہ سنیچر کو ایک صدارتی آرڈیننس بھی جاری کر دیا گیا ہے جس کے بعد ایک نئی آئینی اور سیاسی بحث چھڑ گئی ہے۔
ان سارے اقدامات کے دوران کچھ چیزیں واضح نظر آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ حکومت براہ راست یا دیگر ذرائع سے اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کے موڈ میں نہیں ہے۔ اس سے پیشتر بھی تلخی کے باوجود حکومت اور اپوزیشن مل کر کئی قوانین پاس کرا چکے ہیں جن میں فیٹف، آرمی چیف کی ایکسٹینشن اور فاٹا کا انضمام شامل ہیں۔
یہ بھی واضح ہے کہ حکومت کا پلان روز کی بنیاد پر بدل رہا ہے، کبھی سپریم کورٹ ریفرنس اور کبھی آرڈیننس اور ساتھ آئینی ترمیم۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اتنی جلدی اور بدحواسی کا سبب کیا کوئی خوف ہے؟
ذرائع کے مطابق حکومتی ارکان خصوصا صوبائی اسمبلیوں میں اندرون خانہ اضطراب پایا جاتا ہے۔ اس وقت تین اسمبلیوں میں پی ٹی آئی اور اتحادیوں کی اکثریت ہے۔ تمام اسمبلیوں کو سینیٹ میں برابر نمائندگی حاصل ہے، جس کا مطلب ہے کہ اگر تعداد کے مطابق ووٹ ملیں تو حکومت سینیٹ میں واضح اکثریت حاصل کر لے گی۔
اگر پچھلے الیکشن کی روایت دیکھیں تو خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں اثر و رسوخ کے واقعات دیکھے گئے۔ کیا پچھلی دفعہ کے سخت ایکشن کے باوجود اس دفعہ بھی اس کا امکان ہے؟

نومبر میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخابات کے لیے ترمیم کریں گے (فوٹو: اے ایف پی)

پی ٹی آئی کی جلدی سے تو ایسا ہی لگتا ہے۔ کیا اس دفعہ پنجاب سے بھی پی ٹی آئی کو سرپرائز یا شاک ملنے کا امکان ہے؟ کیا اس کی وجہ کمزور اور عدم دلچسپی رکھنے والے وزرائے اعلیٰ ہیں؟ یا پھر یہ سیاسی اراکین کی طرف سے کابینہ کے ٹیکنو کریٹس کی نامزدگی کے خلاف اظہار ناراضگی ہے؟
حکومت کے پاس سیاسی ذرائع کے علاوہ ایجنسیوں کی معلومات بھی ہوتی ہے۔ بظاہر لگتا ہے حکومت ہر قیمت ہر اوپن الیکشن کرانا چاہتی ہے۔ حیرانی یہ ہے کہ اپوزیشن جو اس سے پہلے سینیٹ چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد اکثریت کے باوجود ہار چکی ہے اور بقول حکومت کہ جس کے اندر دراڑیں پڑ چکی ہیں، وہ خفیہ الیکشن پر اصرار کر رہی ہے۔
دوسری طرف اگر حکومت کو خفیہ الیکشن میں نقصان کا اندیشہ نہ ہوتا تو حکومتی اقدامات میں اتنی بدحواسی بھی نظر نہ آتی۔
اس ساری صورتحال کا سیاسی جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ اپوزیشن کے بیانیے کی پوزیشن کمزور سے کمزور تر ہو رہی ہے، مگر حکومت کے اندر بھی کشمکش اور اضطراب پایا جاتا ہے۔

سنیچر کو صدر نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے آرڈیننس جاری کر دیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

ایک طرف اپوزیشن اپنے لانگ مارچ کی تاریخ پر تاریخ، استعفوں پر اختلافات اور سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے پر بیک فُٹ پر ہے۔
حکومت البتہ اپوزیشن کی وجہ سے کم اور اپنے بد حواس اقدامات کی وجہ سے مسائل سے بدستور دوچار ہے۔ ان کی نیت چاہے ٹھیک ہو مگر ان کی صلاحیت اور ٹائمنگ پر شدید سوالیہ نشان نظر آتے ہیں۔ ترامیم میں دوہری شہریت کو شامل کرنے سے معاملہ مزید متنازع ہو گیا ہے۔ بات پھر اس پر ہی ختم ہو گی کہ اس حکومت کو کسی اپوزیشن کی ضرورت نہیں یہ اپنے لیے خود ہی اپوزیشن ہے۔

شیئر: