سعود خاتون نے ایک فیکٹری سے عسیر کے تحائف تیار کرنے کا معاہدہ کیا- (فوٹو: العربیہ)
ایک سعودی خاتون نے سیاحوں کے لیے ’عسیر کی گڑیا‘ کا تحفہ تیارکیا ہے۔ یہ عسیر کی روایتی پوشاک زیب تن کیے ہوئے ہے۔ اس کی بدولت عسیر کے موروثی اور ثقافتی ماحول کا دنیا بھر میں تعارف ہوگا۔
العربیہ نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے امل ابراہیم اللوذ نے ’عسیر کی گڑیا‘ کا قصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہاں آنے والے سیاح اپنے ہمراہ کوئی نہ کوئی ایسا تحفہ ساتھ لے کر جانا چاہتے ہیں جو ان کے سفر کی یادگار بن جائے۔ میں نے سعودی آرٹسٹ ابراہیم الالمعی کے آرٹ کو دیکھا- انہوں نے عسیر کی خواتین کو تجریدی آرٹ کے ذریعے متعارف کرایا ہے۔ انہوں نے ’برفیلی گیند‘ کے اندر عسیر کے ورثے کو خاص انداز میں سیاحتی تحفوں کی صورت میں پیش کیا ہے۔
امل اللوذ نے ’عسیر کی گڑیا‘ کے حوالے سے بتایا کہ ’دراصل اس گڑیا کا تصور اپنی بیٹی کی ایک تصویر سے اخذ کیا ہے۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ میری بیٹی مقامی پوشااک زیب تن کر کے معصومانہ انداز میں دیکھ رہی ہے بس وہی لمحہ تھا جب میں نے طے کرلیا عسیر آنے والے سیاحوں کو منفرد تحفہ پیش کروں گی۔ میں نے اپنی بیٹی کی شکل اور انداز پر عسیر کی گڑیا تیار کرائی جسے بڑی پذیرائی مل رہی ہے۔‘
امل اللوز نے کہا کہ ’تین برس تک عسیر کے سیاحوں کے لیے ’خاص تحفے‘ کی تلاش و جستجو میں لگی رہی۔ میرے ذہن میں متعدد خیالات اور تصورات جمع ہو گئے۔ آخر میں ابراہیم الالمعی کی مقناطیسی لوحیں اور ان کے بنائے ہوئے متعدد فن پاروں کے نمونے ایک فیکٹری کو بھیجے۔ اس سے عسیر کے تحائف تیار کرنے کا معاہدہ کیا۔ یہ تحائف کئی میلوں میں پیش کیے جو بے حد مقبول ہوئے۔ مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب عوامی میلوں میں مجھے عسیر کے تحائف کا سٹال لگانے کے لیے بلایا جانے لگا ہے۔‘
امل اللوذ نے کہا کہ ان دنوں سعودی ہنر مندوں کی مدد سے عسیر کے سیاحوں کے لیے خاص رنگ و روپ کے تحائف تیار کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ چاہتی ہوں کہ اس کے لیے ایک فیکٹری قائم ہو جہاں عسیر کے تحائف مقامی شہری تیار کریں۔
سیاحتی امور کے ماہر خالد دغیم نے کہا کہ عسیر ریجن مقامی نہیں بلکہ دنیا بھر کے سیاحوں کی نظر میں آنے لگا ہے۔ یہاں دستی مصنوعات، شہد کی مصنوعات، چاندی کے زیورات اور تاریخی نوادر کے کارخانے منافع بخش ثابت ہوں گے۔
دغیم نے کہا کہ عسیر آنے والے سیاح مقامی رسم و رواج اور تاریخی ورثے کے آئینہ دار تحائف تلاش کرتے ہیں۔ وہ یہ ضرورت عوامی بازاروں میں جا کر پورا کررہے ہیں۔ اگر یہاں تحائف تیار کرنے والے کارخانے قائم ہو جائیں جن میں مٹی، جلد (چرم)، لکڑی اور پیتل کی مختلف عوامی مصنوعات تیار کی جا سکتی ہیں۔ تجریدی آرٹ کی لوحیں بنائی جاسکتی ہیں۔ قدرتی مناظر کے البم تیار کیے جا سکتے ہیں۔ یہ کام نہ صرف یہ کہ مقامی ہنرمندوں کو اپنے ہنر کو نکھارنے کا ذریعہ ثابت ہوگا بلکہ اس سے سرمایہ کار فائدہ اٹھا سکیں گے اور یہاں آنے والے سیاحوں کو مقامی تحائف معیاری شکل میں مہیا ہوسکیں گے۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کیخبروں کے لیے”اردو نیوز“گروپ جوائن کریں