پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ، بدامنی اوررشوت ہے
عنبرین فیض احمد۔ ریاض
آج پاکستان کو قائم ہوئے7دہائیاں بیتنے کو ہیں ، ابھی تک ملک گوناگوں مسائل کا شکار ہے ۔ بدامنی، دہشتگردی، بے روزگاری، بجلی، پانی ، گیس اور توانائی کا بحران، فکری و نظریاتی انحطاط ، سیاسی و معاشی انتشار، اس کے علاوہ طبقاتی تقسیم و تصادم اور پھر قوموں میں نفرتیں ، اداروں میں ٹکراو، غریب عوام کے لئے سہولتیں ناپید، عوام کی زبوں حالی کا گراف نیچے ہی نیچے جارہا ہے جوکہ انتہائی افسوس کا مقام ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ، بدامنی اوررشوت ہے جس سے معاشرے میں بداخلاقی جنم لیتی ہے اور پھر اس سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ ان حالات کے باعث معاشرے کا امن و سکون تباہ ہوگیا ہے۔ سچ کوبھی ہم جھوٹ کی میزان میںتولتے ہیں۔ سچ کو جھوٹ کے پردوں سے چھپانا ایک عام سی بات بن کر رہ گئی ہے۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ کسی بھی عہدے یا اختیار کے لئے انتخاب ہمیشہ میرٹ کی بناءپر ہو اور تمام فیصلے انصاف پر مبنی ہوںکیونکہ انصاف ہی وہ واحد اصول ہے جس پر عمل کرکے انسان دین و دنیا میں فلاح پاسکتا ہے۔ زندگی کے کسی بھی شعبے میں اگر انصاف سے کام نہ لیا جائے تو وہاں تفرقہ بازی سر ابھارنے لگتی ہے اور قوموں میں زوال آنا شروع ہوجاتا ہے۔ کیا کیاجائے کہ ہمارے معاشروں میں ہر چیز بکتی ہے۔بعض لوگ تو اپنے وقار کا سودا کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے ۔کسی کی حق تلفی اور دونمبری کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ بااختیار صاحبان کا کردار تو بلا شبہ قابل دیدہوتا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں بعض لوگ بے انتہاءڈھیٹ ہوچکے ہیں۔ جس کا بس چلتا ہے ، وہ دھونس جماتا ہے۔ ہمارے ملک میں اکثر مظلومین کو ان کا حق نہیں ملتا۔ معاشرے میں 2واضح طبقات پائے جاتے ہیں، ایک ظالم اور دوسرا مظلوم ۔ اسی لئے اکثر عدل وانصاف دو مختلف انداز سے ہوتا ہے۔ کبھی ظالم کو مظلوم پر ترجیح دی جاتی ہے اور مظلوم اپنے حق کےلئے دربدر ٹھوکریں کھاتا رہتا ہے یاپھر اسے اس کے حق سے محروم کردیا جاتا ہے ۔
ہمارے ہاں قریباً ہر شعبے میں کرپشن پائی جاتی ہے ۔ ایسے میں عوام کو انصاف میسر آنا مشکل تر ہوجاتا ہے۔یہ بات تو سو فیصد درست ہے کہ جب تک ملک میں ہر سطح پر احتساب نہیںکیاجائے گا، اس وقت تک ملک کا نظام ٹھیک طرح سے نہیں چل سکے گا۔ ظالم شاذ و نادر ہی گرفت میںآتے ہیں اور وہ بھی نجانے کیوں اور کیسے پتلی گلی سے نکل لیتے ہیں۔ رہے مظلوم تو وہ اپنے حق کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں لاکھوں غریب لوگ ایسے ہیں جونجانے کتنی دہائیوں تک عدالتوں میں دھکے کھاتے ہیں، اس کے باوجود انصاف کے حصول کے نزدیک بھی نہیں پہنچ پاتے ہم نے تو عدل و انصاف کی نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی قائم کررکھی ہے۔ ، جب تک ہم قانون کو انصاف کے کٹہرے میں پیش نہیں کرتے، اسی طرح بے یارو مدد گار یعنی کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی بسر کرتے رہیں گے اور دنیا میں ہمارا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوگا۔
دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی ہے وہ کراچی کی عدالت کے باہر کی ہے جہاں لوگ اپنے کردہ یا ناکردہ گناہوں کے فیصلے کا انتظار کررہے ہیں ۔ یہ وہ بھکاری ہیں جو انصاف کی دہائی دیتے دیتے تھک چکے ہیں۔ انصاف کا دروازہ نجانے ان جیسے غریبوں کے لئے کب کھلے گا؟ وہ تھک ہار کر عدالت میںہی انصاف کے لئے جھولی پھیلائے ہوئے ہیں کہ شاید کسی کو ان کے حالات پرر حم آجائے ۔ یہ لوگ زندگی سے تھک چکے ہیں ،ان کے چہرے بتا رہے ہیں کہ وہ کرب و اذیت میں مبتلا ہیں لیکن پھر بھی ایک امید باقی ہے کہ ان جیسوں کی بھی کوئی شنوائی ہوگی۔ ہمیں تو یہ سمجھا دیا گیا ہے کہ ظلم کی حکومت تو چل سکتی ہے لیکن ناانصافی کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی ۔ کوئی بھی معاشرہ کفر کے تحت تو چل سکتا ہے مگر ظلم کے ساتھ نہیں قائم رہ سکتا ۔
یہ درست ہے کہ جس معاشرے میں انصاف کا حصول مشکل ہوجائے ،وہاں لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہوجاتی ہےں اور زندگی کا سارا نظام الٹ پلٹ ہوجاتا ہے۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جو بھی حکومت آتی ہے ان کی ترجیحات میں عوامی فلاح و بہبود اور نظام میں بہتری شامل نہیں ہوتی بلکہ کچھ اور ہی ہوتی ہیں۔ کوئی صورتحال کی اصلاح کرنا چاہے بھی تو وہ معاملات بہتر بنانے کی بجائے خود بھی دوسروں کے رنگ جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دہائیوں کے بگڑے معاملات وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔ ان کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا حالانکہ ان معاملات کو حل کرنے سے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی آسکتی ہے۔
ہمارے ہاں کی کچہریوں وغیرہ میںعموماً طاقتور اور بااثر لوگوں کو تو من پسند ”انصاف“ مل جاتا ہے مگر کمزور، غریب اور بے اثر لوگوں کو تاریخ پہ تاریخ دیدی جاتی ہے ۔ یوں ان کا مقدمہ سالہا سال لٹکا رہتا ہے ۔ گاہے فیصلے کا منتظر دنیا سے چلا جاتا ہے اور پھر اس کی نسلیں یہ مقدمہ بھگتتی ہیں ۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ سب سے پہلے ملک میں انصاف کا بول بالا ہو ۔ اگر لوگوں کے لئے انصاف عام ہوتا تو آج ہمارے ملک کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔اس لئے سول سوسائٹی اور لوگوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے ، یہ رشوت کا ناسور بھی عدل و انصاف کے نظام کو کمزور اور معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کرتا ہے ۔ ملک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ضروری ہے انصاف اور قانون کی عملداری ہو ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے ملک میں یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی سرکاری آفیسر کرپشن کرے یا کوئی غلط کام کرے تو اسے فوراً سزا سنادی جاتی ہے لیکن اگر کوئی سیاستدان کرپشن کرے تو کوئی پوچھتاہی نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ سچ اور جھوٹ میں موازنہ کرنابھی اب مشکل بنا دیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭٭