گلگت بلتستان میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے آتے ہی ہمالیہ نیشنل پارک اور نانگا پربت نیشنل پارک کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔
اس حوالے سے دو دسمبر 2020 کو وزیراعظم عمران خان نے ان کا افتتاح بھی کر دیا۔ دونوں نیشنل پارکس 10 ہزار فٹ کی بلندی پر ہوں گے۔
بظاہر جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے یہ ایک مثبت اقدام تھا لیکن گلگت بلتستان میں یہ ایک تنازعے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ نہ صرف اپوزیشن بلکہ سول سوسائٹی نمائندگان، لیگل کمیونٹی اور خود حکومتی جماعت کے کارکنان کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں
-
گلگت بلتستان: پی ٹی آئی کی برتریNode ID: 518151
-
گلگت بلتستان میں پاک فوج کے ہیلی کاپٹر کو حادثہ، چار فوجی ہلاکNode ID: 527701
نیشنل پارکس کے مخالفین کے مطابق حکومتی فیصلہ گلگت بلتسان کی آئینی حیثیت اور وہاں پر لاگو قوانین اور نیشنل پارک کے ضوابط اور مقامی آبادی کے حقوق کا باہمی ٹکراو ہے۔
گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے ماہر قانون اور قراقرم لا کالج میں انٹرنیشنل قانون کے استاد محمد اشفاق ایڈووکیٹ نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’مہاراجہ رنجیت سنگھ (1780-1839) کے دور میں عوامی زمینوں کو سرکار کی ملکیت قرار دیا جاتا تھا اس عمل کو خالصہ سرکار کہا جاتا تھا۔
اس کے علاوہ گلگت بلتستان میں سال 1974 سے ہی سٹیٹ سبجیکٹ رول کا قانون معطل ہے۔ ناردن ایریاز ناتوڑ رولز 1978 کے اطلاق کے ذریعے یہاں کی بنجر اراضیات کو خالصہ سرکار یعنی ریاست کی ملکیت قرار دیا گیا ہے۔‘
محمد اشفاق نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سب سے پہلا سوال تو یہ بنتا ہے کہ خالصہ سرکار کا قانون گلگت بلتستان میں کیوں لاگو ہے جبکہ پاکستان کے چاروں صوبوں بشمول کشمیر وہاں لاگو نہیں ہے۔ گلگت بلتستان کشمیر تنازعے کا حصہ ہے یہ پاکستان کے 1973 کے آئین کا حصہ نہیں ہے۔ اسے 1949 سے 1973 تک ایف سی آر جبکہ بعد میں صدارتی حکم ناموں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’1978 میں خالصہ سرکار کے تحت گلگت بلتستان میں گاؤں سے باہر اور لب دریا زمینوں کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے خالصہ سرکار یعنی سرکار کی ملکیت قرار دے دیا گیا۔‘

ان کے مطابق ’اب جب موجودہ حکومت نے یہاں دو نیشنل پارک بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدیوں سے ان علاقوں میں روایتی قوانین حاوی رہے ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگ ان زمینوں کے مالک ہیں اور ان سے مستفید ہوتے ہیں۔ اب جب یہاں پر نیشنل پارک بنا دیے جائیں گے تو لوگوں کو مستفید ہونے سے روک دیا جائے گا۔‘
محمد اشفاق ایڈووکیٹ کے مطابق ’حکومت نے غلطی یہ کی ہے کہ مقامی لوگوں کو بالکل ہی اعتماد میں نہیں لیا۔ فیصلہ سازی اور مینجمنٹ میں ان کو شامل نہیں کیا اور مقامی آبادی کے حقوق کو بھی تحفظ نہیں دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ نیشنل پارک سے حاصل ہونے والی آمدن میں بھی ان کا حصہ نہیں رکھا۔ اس وجہ سے گلگت بلتستان میں مزاحمت پائی جا رہی ہے۔‘
مقامی صحافی اور تجزیہ کار پیار علی پیار نے حکومتی فیصلے کے حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ان علاقوں میں مقامی آبادی کا انحصار کاشت کاری پر ہے۔ گلگت بلتستان میں کاشت کاری کے لیے زمینیں پہلے ہی کم ہیں۔ جب یہ نیشنل پارک میں چلی جائیں گی تو یہاں پر کاشت کاری نہیں ہو سکے گی۔ اس وجہ سے لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑے گی جبکہ گلگت بلتستان میں آبادی کا تناسب پہلے ہی بگڑ چکا ہے اور اس میں مزید تبدیلی کا خدشہ ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ایک طرف حکومت گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی بات کر رہی ہے تو دوسری جانب ان کی زمینیں چھینی جا رہی ہیں۔ جب لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیں گے تو یہ تو قبضے والی بات ہوئی ناں؟ اب بھی وقت ہے کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے اور مقامی لوگوں کے حقوق کا اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق تحفظ کیا جائے۔ لوگوں کو ان نیشنل پارک کے انتظامی معاملات اور آمدن میں قانون سازی کے ذریعے شراکت دار بنایا جائے۔‘
اپوزیشن اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے تحفظات سامنے آنے کے بعد وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’نیشنل پارک کے قیام کا مقصد صرف جنگلات اور جنگلی حیات کا تحفظ ہے۔ ان پارکس کا سارا انتظام وہاں کی مقامی آبادی کی شراکت داری اور شمولیت کے ساتھ محکمہ جنگلات گلگت بلتستان کر رہا ہے۔‘
