گوادر میں سمندری حیات کے تحفظ کے لیے مصنوعی چٹانوں کا منفرد منصوبہ
گوادر میں سمندری حیات کے تحفظ کے لیے مصنوعی چٹانوں کا منفرد منصوبہ
بدھ 17 فروری 2021 9:50
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
بلوچستان حکومت نے گوادر کے قریب جیوانی میں ساحل سمندر پر سیمنٹ کے ماڈیولر بلاکس کی مدد سے مصنوعی ریف بنانے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ مصنوعی سمندری ماحول بنانے کا یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہے جس سے سمندری حیاتیاتی تنوع کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ٹرالروں کے ذریعے ہونے والے غیرقانونی شکار کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
گوادر میں تعینات محکمہ ماہی گیری بلوچستان کے ڈائریکٹر احمد ندیم نے اردو نیوز کو ٹیلی فون پر بتایا کہ بلوچستان حکومت نے یہ منصوبہ گوادر کے علاقے جیوانی میں شروع کیا ہے جہاں 330 ماڈیولر بلاکس سمندر میں اتارے جا رہے ہیں۔ ہر بلاک کا وزن 1500 کلو گرام ہے۔ چار کروڑ 85 لاکھ روپے لاگت کے اس ابتدائی منصوبے کی کامیابی کے بعد گڈانی تک بلوچستان کے ساحل پر مزید مصنوعی چٹانیں بھی بنائی جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مصنوعی چٹانیں کورل ریف (مونگے کی چٹانوں) کی طرح کام کریں گی۔ یہ ایک طرح سے سمندر کے اندرمصنوعی باغیچہ یا مصنوعی ماحول بنانے جیسا ہوگا جو سمندری حیات اور پودوں سمیت سمندری ماحولیاتی نظام کے اجزا کی حفاظت، توسیع اور بحالی کا کام کرے گا۔
احمد ندیم کے مطابق ’ان مصنوعی چٹانوں میں چھوٹی مچھلیاں پرورش اور پناہ پائیں گی۔ ان چھوٹی مچھلیوں کو کھانے کے لیے بڑی مچھلیاں آئیں گی اس طرح ساحل کے قریب ہی چھوٹے ماہی گیر شکار کر سکیں گے اور لاگت میں کمی آنے سے انہیں معاشی فائدہ بھی پہنچے گا۔'
ڈائریکٹر ماہی گیری کا کہنا تھا کہ ’اس وقت بلوچستان میں 70 ہزار سے زائد افراد ماہی گیری کرتے ہیں جن میں 70 سے 80 فیصد چھوٹے ماہی گیر ہیں جو صبح شکار پر جاتے ہیں اور شام کو واپس آتے ہیں مگر کراچی اور سندھ سے آنے والے بڑے ٹرالروں کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ممنوعہ جال سے غیر قانونی شکار کرنے والے بڑے ٹرالرز سمندری حیات کی نسل کشی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہ ماڈیولر بلاکس یا مصنوعی چٹانیں سمندری ماحول کی بحالی کے منصوبے کے تحت قائم کی جا رہی ہیں۔
جنگلی حیات اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ورلڈ وائلڈ فنڈ فار نیچر پاکستان (ڈبلیو ڈبلیو ایف) نے بلوچستان حکومت کے اس منصوبے کو سراہا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے تکنیکی مشیر معظم خان کا کہنا تھا کہ ’ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے اس منصوبے کو ڈیزائن کرنے میں بلوچستان حکومت کو مدد فراہم کی ہے۔ یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہے جو جیونی کے قریب پاک ایران سرحد پر واقع 'گواتر بے' کے مقام پر شروع کیا گیا ہے۔‘
’گواتر بے‘ اپنے حیاتیاتی تنوع کے لیے مشہور ہے۔ یہ مقام ہمپ بیک ڈولفن اور باٹل نوز جیسی ڈولفنز کی کئی اہم نسلوں کا ٹھکانہ ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے سمندری حیاتیاتی تنوع کو تحفظ اور فروغ ملے گا اور ساحل کے قریب رہنے والے لوگوں کو معاشی فائدہ پہنچے گا۔ یہ اقدام سمندری حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے ایک نئے دور کا آغاز ہے، جس سے پاکستانی پانیوں میں نایاب سمندری حیات اور پودوں کی نشوونما بالخصوص تجارتی لحاظ سے اہم مچھلیوں اور شیل فش کی پیداوار بڑھانے میں مدد ملے گی۔
معظم خان کے مطابق یہاں سے مقامی ماہی گیروں کو مچھلی کے ذخائر تک رسائی ملے گی۔ بلوچستان کے ماہی گیروں کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ غیرقانونی شکار کا درپیش ہے۔ بڑے ٹرالرز اور ممنوعہ جال سے شکار کرنے والوں کی وجہ سے چھوٹے ماہی گیروں کو مناسب شکار نہیں ملتا جس کی وجہ سے وہ معاشی طور پر تباہ ہو رہے ہیں۔ اب انہیں گہرے سمندر میں نہیں جانا پڑے گا کیونکہ یہ چٹانیں گوادر کے خلیج میں ٹرالروں کے ذریعے ہونے والے غیر قانونی شکارکو کم کرنے میں مدد دیں گی۔