Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوادرمیں باڑ لگانے کا کام روک دیا گیا

'یہ گوادر سے باہر پہاڑی، ویران اور غیر روایتی راستوں سے آمدروفت روکنے کے لیے عارضی باڑ کا کام تھا۔' فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے ساحلی شہر گوادر میں مقامی آبادی کی مخالفت اور سیاسی جماعتوں کے احتجاج کے بعد آہنی باڑ کی تعمیر کا کام روک دیا گیا ہے۔
یہ اعلان بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیاء لانگو نے منگل کو حکمران جماعت بی اے پی کے پارلیمانی وفد کے ہمراہ گوادر کے دورے کے موقع پر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے احکامات پر باڑ کی تعمیر پر مزید کام روک دیا گیا ہے۔ 
بلوچستان ہائی کورٹ نے بھی گذشتہ روز اس منصوبے سے متعلق بلوچستان بار کونسل کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔
پاک چین اقتصادی راہداری کے مرکز کی حیثیت رکھنے والے گہری بندرگاہ کے حامل بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں حکومت نے رواں ماہ سکیورٹی خطرات کے پیش نظر آہنی دیوار یا باڑ کی تعمیر کا کام شروع کیا تھا۔
یہ باڑ گوادر کے تقریباً 24 مربع کلومیٹر کے اس مرکزی حصے کے گرد لگائی جانی تھی جس میں گوادر پورٹ، فری زون اور دیگر اہم سرکاری عمارتیں واقع ہیں اور شہر کی آبادی کی اکثریت بھی اسی حصے میں آباد ہے۔
منصوبے کے تحت گوادر کے گرد باڑ لگانے کے بعد شہر میں داخلے کے لیے صرف دو دروازے بنائے جانے تھے۔ ان دروازوں پر سکینر مشینیں نصب کرنے کے ساتھ ساتھ خفیہ کیمرے بھی نصب کیے جانے تھے تاکہ ہر آنے جانے والے شخص کی نگرانی کی جاسکے۔
مقامی آبادی اور گوادر سمیت بلوچستان کی سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے شہریوں کی آزادانہ نقل و حمل پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ دنیا میں کسی شہری آبادی کو آہنی باڑ لگا کر محفوظ بنانے کے ایسے کسی منصوبے کی مثال نہیں ملتی۔
اس اقدام سے گوادر کے باسی دو حصوں میں کٹ جائیں گے۔ گوادر کے مقامی آبادی کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم پرست جماعتوں بلوچستان نیشنل پارٹی اورنیشنل پارٹی بھی باڑ منصوبے کے خلاف سراپا احتجاج تھیں۔

گوادر میں حکومت نے رواں ماہ سیکورٹی خطرات کے پیش نظر آہنی دیوار یا باڑ کی تعمیر کا کام شروع کیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

عوامی دباؤ اور معاملہ بلوچستان ہائی کورٹ میں جانے کے بعد منگل کو وزیرداخلہ بلوچستان ضیاءلانگو حکومتی پارلیمانی وفد کے ہمراہ گوادر پہنچے جہاں انہوں نے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے ہمراہ کھلی کچہری میں اس مسئلے پر عوامی تحفظات کو سنا۔ انہوں نے گوادر میں باڑ کی سائٹ کا بھی معائنہ کیا۔
بعد ازاں نیوز کانفرنس میں ضیاءلانگو کا کہنا تھا کہ ’گوادر میں کئی ناخوشگوار واقعات ہوچکے ہیں اس لیے شہر میں جاری بڑے ترقیاتی منصوبوں کو تحفظ فراہم کرنے اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے باڑ کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ باڑ کی تعمیر کا منصوبہ گوادر کے ماسٹر پلان کا حصہ ہے مگر اب اس منصوبے کوعوامی تحفظات دور کرکے ہی آگے بڑھایا جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ گوادر کے شہریوں کی باڑ سے متعلق تجاویز تحفظات پر پارلیمانی وفد اپنی سفارشات جلد وزیر اعلیٰ بلوچستان کو پیش کرے گی۔ گوادر میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جائے گا جو عوامی خواہشات کے برعکس ہو۔

'دنیا میں کسی شہری آبادی کو آہنی باڑ لگا کر محفوظ بنانے کے ایسے کسی منصوبے کی مثال نہیں ملتی۔' فائل فوٹو: اے ایف پی

دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے منگل کو ٹوئٹر پر اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اپوزیشن جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم اور اپوزیشن کی جماعتیں اس مسئلے کو سیاسی رنگ دے رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ گوادر سیف سٹی منصوبہ کئی سالوں سے تاخیر کا شکار تھا ہم نے اس پر کام کا آغاز کیا۔ اپوزیشن اس منصوبے کو باڑ کا نام دے رہی ہے یہ باڑ نہیں بلکہ سکیورٹی انتظامات کے تحت کیے جانے والے اقدامات ہیں۔ 
وزیراعلیٰ جام کمال کا کہنا تھا کہ یہ گوادر سے باہر پہاڑی، ویران اور غیر روایتی راستوں سے آمدروفت روکنے کے لیے عارضی باڑ کا کام تھا۔ ہر جگہ انسانی طور پر نگرانی نہیں کی جاسکتی۔ ’یا تو ہم یہ انتظامات کریں یا پھر گوادر کے ارد گرد ہر جگہ پولیس، لیویز ایف سی اور فوج کی 50 چیک پوسٹیں بنا دیں جو ہر جگہ لوگوں کو روک کر پوچھتے کہ کہاں جا رہے ہیں جس سے شہریوں کو تکلیف پہنچتی۔‘

شیئر:

متعلقہ خبریں