اوپن بیلٹ: ’الیکشن کمیشن کو سب معلوم لیکن ہمیں بتا نہیں رہے‘
اوپن بیلٹ: ’الیکشن کمیشن کو سب معلوم لیکن ہمیں بتا نہیں رہے‘
بدھ 17 فروری 2021 14:29
وزیراعظم عمران خان کا مؤقف ہے کہ سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے ہونا چاہیے۔ فوٹو: نیشنل اسمبلی پاکستان ٹوئٹر
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے سینیٹ الیکشن کی اوپن بیلٹنگ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ’ووٹ کے لیے پیسے دینے والوں کے پاس بھی کوئی سسٹم ہو گا کہ بکنے والا ووٹ دے گا یا نہیں؟‘ انہوں نے کہا کہ ‘الیکشن کمیشن کو یہ سب معلوم ہے لیکن ہمیں بتا نہیں رہے۔‘
بدھ کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ کی سماعت کے دوران متذکرہ ریمارکس اٹارنی جنرل کی اس دلیل کے جواب میں دیے گئے جس میں کہا گیا تھا ’تمام ریاستی ادارے الیکشن کمیشن کی بات کے پابند ہیں، بیلٹ پیپر پر بار کوڈ یا سیریل نمبر لکھا جا سکتا ہے‘
سماعت کے دوران وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ’اوپن بیلٹنگ کے ذریعے سینیٹ انتخابات کروانے کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے۔‘
عدالت کو بتایا گیا کہ ’کرپٹ پریکٹس روکنے کے لیے خصوصی اقدامات کیے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے نگرانی کے لیے کمیٹی قائم کی ہے جس میں مختلف شعبوں کے افسران کو شامل کیا گیا ہے۔‘
بنچ میں شامل جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ووٹ ڈالنے کے بعد خفیہ رکھنے کا مرحلہ ختم ہو جاتا ہے، کرپشن ختم کرنے کے لیے الیکشن کمیشن ڈالے گئے ووٹوں کا جائزہ لے سکتا ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ سینیٹ الیکشن پہلی بار نہیں ہو رہا ہے کیا تناسب سے ہٹ کر آنے والے نتائج غیرقانونی نہیں؟
چیف الیکشن کمشنر نے جواب دیا ’ارکان اسمبلی کے ووٹ دینے پر کوئی پابندی نہیں، ارکان اسمبلی کو ووٹ کا پابند بنانے کے لیے قانون سازی کرنا ہوگی‘
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے ’اگر کوئی جماعت تناسب سے زیادہ سینیٹ سیٹیں لے تو الیکشن کمیشن کیا کرے گا، الیکشن کمیشن کیسے تعین کرے گا کہ الیکشن متناسب نمائندگی سے ہوئے ہیں۔‘
جسٹس اعجاز الحسن نے سماعت کے دوران کہا کہ ’ووٹ کی خرید و فروخت سے متناسب نمائندگی کے اصول کی دھجیاں اڑ جائیں گی اور سسٹم تباہ ہو جائے گا۔‘
وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل کے دوران عدالت کو بتایا کہ کسی کو ووٹ کا حق استعمال کرنے سے نہیں روک سکتے۔ آزادانہ ووٹ نہ دیا تو سینیٹ انتخابات الیکشن نہیں سیلکشن ہوں گے۔ ووٹ دیکھنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 226 میں ترمیم کرنا ہوگی۔‘
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’ووٹنگ بے شک خفیہ ہو، لیکن سیٹیں اتنی ہی ہونی چاہئیں جتنی بنتی ہیں۔‘
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ ووٹ چوری نہ ہو لیکن الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ چوری ہونے کے بعد کارروائی کریں گے۔‘
اٹارنی جنرل نے دوران سماعت کہا کہ اسلام آباد میں آج بھی لوگ نوٹوں کے بیگ لے کر گھوم رہے ہیں، بے ایمانی ہمیشہ ایمانداری سے کی جاتی ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے چیف الیکشن کمشنر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’چیف الیکشن کمشنر صاحب آپ بھی ابھی تک ہمیں مطمئن نہیں کر پائے، آپ قانون پڑھ کر سنا رہے ہیں لیکن بات کی گہرائی کو سمجھیں، الیکشن کمیشن کی وجہ سے حکومت بنتی ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کرپٹ پریکٹسز کو روکنے کے لیے بیلٹ پیپر پر بار کوڈ ہو تو ہارس ٹریڈنگ روکی جا سکتی ہے۔ عدالت حکم دے گی تو ہی بار کوڈ لگ سکتا ہے۔ جس سے الیکشن کمیشن کو پتہ لگ سکتا ہے کہ ووٹ کس نے کس کو دیا۔
اٹارنی جنرل کا یہ بھی کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن سٹیٹ بینک سے تعاون مانگتا ہے، لیکن ووٹ خریدنے والا کبھی بھی سٹیٹ بینک کے ذریعے پیسہ منتقل نہیں کرتا۔ ویڈیو سامنے انے کے بعد خرید و فروخت کا طریقہ کار بھی تبدیل ہو چکا ہے۔
الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بدھ کے روز اپنے دلائل مکمل کر لیے، جس کے بعد تینوں صوبوں اور سیاسی جماعتوں کے دلائل سننے کے لیے سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی گئی۔