Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’افسوس میثاق جمہوریت میں اوپن بیلٹ کا معاہدہ کرنے والی جماعتیں پیچھے ہٹ گئیں‘

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا ہے کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دینے پر کوئی سزا نہیں۔ فوٹو: روئٹرز
پاکستان کی سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کروائے جانے کے معاملے پر دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اوپن بیلٹ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دینا کرپشن کا ثبوت نہیں۔ اگر کسی نے مخالف امیدوار کو ووٹ دے بھی دیا تو کیسے ثابت ہوگا کہ متعلقہ ایم پی اے نے پیسے لیے ہیں؟
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ’سینیٹ انتخابات میں ووٹوں کی خرید و فروخت پر سیاسی جماعتوں کے رہنما پارلیمان میں بحث کرتے رہے ہیں۔ افسوس ہے کہ میثاق جمہوریت میں اوپن بیلٹ کا معاہدہ کرنے والی جماعتیں ہی اس سے پیچھے ہٹ گئی ہیں۔‘
جمعرات کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کے سامنے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے اپنے دلائل میں ریفرنس میں حکومت کے اٹھائے گئے سوال کو غیر مناسب قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’اٹارنی جنرل کے مطابق معاملہ وفاقی کابینہ کے پاس تھا کہ وہ ترمیم کرے، کابینہ وہ بوجھ اپنے سر پر نہیں اٹھا سکتی۔ اس لیے عدالت مشورہ دے۔ حکومت عدالت سے مشورہ نہیں مانگ سکتی۔ سوال قانونی انداز میں ہونا چاہیے جبکہ یہ سیاسی معاملہ ہے۔ عدالت کو سیاسی سوالات سے دور رہنا چاہیے۔‘
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ہارس ٹریڈنگ کا سب نے سنا ہے کسی کے پاس شواہد نہیں۔ اخباری خبروں اور ویڈیوز تک ہی ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے۔ 
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کبھی سینیٹ کا الیکشن چیلنج ہوا؟ آئین بذات خود بھی ایک سیاسی دستاویز ہے۔ آئینی تشریح کرتے وقت عدالت سیاسی کام ہی کر رہی ہوتی ہے۔ 
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ پولنگ بوتھ میں نہ رشوت چلتی ہے نہ امیدوار سے کوئی رابطہ ہوتا ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ سینیٹ انتخابات میں ووٹوں کی خرید و فروخت پر سیاسی جماعتوں کے رہنما پارلیمان میں بحث کرتے رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن رزلٹ کے بعد ووٹ کا جائزہ لیا جا سکتا ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ گنتی کے وقت ووٹ کو دیکھا جاتا ہے تاہم گنتی کے وقت ووٹ ڈالنے والے کا علم نہیں ہوتا۔ آئین ووٹ ڈالنے والی کی شناحت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ 
انھوں نے کہا کہ اگر عدالت اوپن بیلٹ انتخابات کا کہہ بھی دے تو کیا اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہو جائے گی؟ اگر کسی نے اپنی پارٹی کے مخالف امیدوار کو ووٹ دیا ہے تو اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ متعلقہ ایم پی اے نے پیسے لے کر ووٹ دیا ہے؟ اس بات کو کیسے ثابت کر سکتے ہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہوگی یا نہیں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ آپ پیپلز پارٹی کے نمائندے کے طور پر نہیں بلکہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے طور پر عدالت کی معاونت کریں۔ ووٹوں کی خروید و فروخت کا معاملہ بارہا پارلیمان میں زیر بحث آیا۔ قراردادیں  پاس ہوئیں۔ میثاق جمہوریت میں بھی اتفاق ہوا کہ سینیٹ کا انتخاب اوپن بیلٹ پر ہوگا لیکن اب کوئی اس پر قائم نہیں رہا۔ 
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 226 میں ترمیم کیے بغیر وفاقی حکومت کی خواہش پوری نہیں ہو سکتی۔ جس پر عدالت نے کہا کہ آپ جا سکتے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ کہ ابھی میرے دلائل مکمل نہیں ہوئے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن کے ہدایت نامہ میں متناسب نمائندگی اور خفیہ ووٹنگ کا ذکر ہے(فوٹو:اے ایف پی)

بینچ نے ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کو دلائل کے لیے روسٹرم پر بلا لیا۔ 
اس سے قبل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’میں اٹارنی جنرل کے دلائل سے اتفاق کرتا ہوں۔ صرف چند باتیں عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ الیکشن کمیشن کے ہدایت نامہ میں متناسب نمائندگی اور خفیہ ووٹنگ کا ذکر ہے۔ ووٹ ڈالنے کا عمل خفیہ ہونا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پارلمینٹ سپریم ادارہ ہے۔ پارلیمنٹ کے وقار کا تحفظ ضروری ہے اسی وجہ سے اراکین اسمبلی پر کچھ پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں۔ اگر رکن اسمبلی پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔‘
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ رکن اسمبلی کے خلاف کیا کارروائی ہو سکتی ہے؟ اس دوران اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے اور کہا کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دینے والے رکن کو اسکے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ نااہلی بھی ہو سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63 اے کا اطلاق سینیٹ انتحابات پر نہیں ہوتا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دینے پر کوئی سزا نہیں جس کو پارٹی کے خلاف ووٹ دینا ہے کھل کر دے۔ سزا صرف ووٹوں کی خرید وفروخت پر ہو سکتی ہے۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کبھی سینیٹ کا الیکشن چیلنج ہوا؟ آئین بذات خود بھی ایک سیاسی دستاویز ہے (فوٹو: اے پی پی)

ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت سیٹیں ہونا ضروری ہیں۔ اگر متناسب نمائندگی نہیں ملتی تو پھر اس میں کوئی کرپٹ پریکٹسز ملوث ہوں گی۔ 
چیف جسٹس نے کہا کہ عمومی گفتگو تو ہوتی رہے گی اب قانون کی بات کریں۔ آرٹیکل 226 پڑھ کر اسی پر دلائل دیں۔ آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم وزرائے اعلیٰ کے علاوہ ہر الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہوگا۔ 
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 59 اور 226 کو ملا کر پڑھنا ہوگا۔ خفیہ رائے شماری میں متناسب نمائندگی نہ ہوئی تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
ریفرنس پر مزید سماعت جمعے کو ساڑھے دس بجے کی جائے گی۔

شیئر: