پاکستان کی سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے حوالے سے دائر صدارتی ریفرنس پر اپنی محفوظ رائے سناتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات آئین کے تحت ہوں گے۔ یہ رائے چار ججز نے دی ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلاف کیا ہے۔
عدالت نے اپنی رائے میں کہا ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین اور قانون دونوں کے تحت آتے ہیں۔ ’الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ شفاف اور کرپٹ پریکٹسز سے پاک الیکشن کا انعقاد کروائے۔ آئین کے آرٹیکل 226 میں ترمیم کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے۔‘
سپریم کورٹ نے اپنی رائے میں کہا ہے کہ ’تمام ادارے اور اتھارٹیز الیکشن کے انعقاد میں الیکشن کمیشن کی معاونت کی پابند ہیں۔ بیلٹ پیپر کا خفیہ ہونا حتمی نہیں ہے۔‘
جمعرات کو عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے ریفرنس پر سماعت مکمل کرتے ہوئے رائے محفوظ کی تھی۔
مزید پڑھیں
-
-
اوپن بیلٹ کیس: ’پارلیمان کا اختیار اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے‘
Node ID: 543871
-
سپریم کورٹ نے اپنی رائے میں قرار دیا ہے کہ بیلٹ پیپر کا خفیہ رہنا ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا۔ الیکشن کمیشن 218 کے تحت حاصل اختیارات کو بروئے کار لا کر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے الیکشن کا شفاف انعقاد یقینی بنا سکتا ہے۔
صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سماعت کی تھی تاہم پیر کو رائے دینے کے لیے پانچ رکنی بینچ کے بجائے تین رکنی بینچ کورٹ روم میں آیا جس میں چیف جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجاز الاحسن موجود تھے۔
چیف جسٹس نے صدارتی ریفرنس پر رائے سناتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس بھیجا تھا۔ جس میں سوال کیا گیا تھا کہ کیا سینیٹ انتخابات آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت ہوتے ہیں یا نہیں؟
چیف جسٹس نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے چار ایک کے فرق سے یہ رائے دی ہے جبکہ جسٹس یحیی آفریدی نے رائے دینے سے اختلاف کیا ہے۔ وہ اختلافی نوٹ لکھیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت کی رائے ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین اور قانون کے تحت ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ شفاف الیکشن کا انعقاد یقینی بنائے۔
عدالت نے قرار دیا کہ پارلیمنٹ کو اختیار ہے کہ وہ آرٹیکل 226 میں ترمیم کرے۔
عدالت نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 218 الیکشن کمیشن کو اختیار دیتا ہے کہ وہ شفاف الیکشن کے انعقاد کروائے۔ تمام ادارے اس کے ساتھ تعاون کے پابند ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ عدالت پہلے ہی ایک کیس نیاز احمد بنام ریاست قرار دے چکی ہے کہ بیلٹ پیپر کا خفیہ ہونا ہمیشہ کے لیے نہیں۔ اس لیے الیکشن کمیشن اپنے اختیارات کو بروئے کار لائے اور شفاف انتخابات کرانے کے لیے ٹیکنالوجی بھی استعمال کرے۔
’صدارتی آرڈیننس ختم‘
سپریم کورٹ کی رائے پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیئر قانون دان اکرام چوہدری نے اردو نیوز کو بتایا کہ عدالت نے واضح کر دیا ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت ہی ہوں گے۔
’آئین کے آرٹیکل 226 میں الیکشن کا خفیہ ہونا یقینی بنایا گیا ہے۔ اس کے بعد تو الیکشن کمیشن کے پاس اختیارات ہمیشہ سے یہی تھے کہ وہ انتخابات کو شفاف بنانے کے اقدامات کرے۔‘
انھوں نے کہا کہ اب سینیٹ الیکشن کے حوالے سے جاری کیا گیا صدارتی آرڈیننس بھی ختم ہو چکا ہے۔ اس لیے سینیٹ کے حالیہ انتخابات خفیہ ہی ہوں گے۔

ریفرنس میں پاکستان پیپلز پارٹی کی نمائندگی کرنے والے وکیل رضا ربانی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی رائے بڑی واضح ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین کے تحت ہیں۔ اس لیے تین مارچ کو ہونے والے انتخابات خفیہ بیلٹ پیپر پر ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بیلٹ پیپر کی سیکریسی کے حوالے سے ہمارا موقف نہیں مانا لیکن سو دوسری باتیں مانتے ہوئے ان انتخابات کو آئین کے تحت قرار دیا ہے۔
رضا ربانی نے کہا کہ اب الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ قانون کے تحت شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے تاہم ووٹ کی شناخت کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ اس کا تعین تفصیلی رائے سامنے آنے کے بعد ہی بات ہو سکتا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت نے 23 دسمبر 2020 کو صدر مملکت کے ذریعے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رائے طلب کی تھی کہ آئین کے آرٹیکل 226 کی تشریح کی جائے کہ آیا سینیٹ انتخابات اس آرٹیکل کے تحت ہوتے ہیں یا پھر الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت ہوتے ہیں۔
ریفرنس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سینیٹ انتخابات کا طریقہ کار آئین میں واضح نہیں ہے۔ سینیٹ کا انتخاب الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت کرایا جاتا ہے، سینیٹ کا الیکشن اوپن بیلٹ کے تحت ہوسکتا ہے اور اوپن بیلٹ سے سینیٹ الیکشن میں شفافیت آئے گی۔
ریفرنس میں وفاقی حکومت کی نمائندگی اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کی تھی جبکہ پاکستان پیپپلز پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین، پاکستان مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام ف، جماعت اسلامی پاکستان، پاکستان بار کونسل، سندھ بار کونسل سمیت کئی افراد انفرادی حیثیت میں فریق بنے۔
اٹارنی جنرل نے اس ریفرنس میں طویل دلائل دیے۔ انھوں نے موقف اپنایا کہ عام انتخابات اور سینیٹ انتخابات میں فرق ہوتا ہے۔ عام ووٹر فری ووٹر ہوتا ہے جبکہ سینیٹ انتخابات میں ووٹر ایم پی اے یا ایم این ہوتا ہے جو پارٹی پالیسی کا پابند ہوتا ہے اس لیے اسے فری ووٹر نہیں کہا جا سکتا۔ ایسا طریقہ کار اپنایا جائے کہ اگر پارٹی سربراہ چاہے تو وہ چیک کر سکے کہ کون سے ایم پی اے یا ایم این نے کس امیدوار کو ووٹ دیا ہے۔
