سعودی عرب میں آج بھی روایتی ملبوسات بڑے فخر کے ساتھ پہنے جاتے ہیں (فوٹو: عرب نیوز)
سعودی عرب نے اپنی ثقافت، تاریخ اور سماجی زندگی کو دنیا کے سامنے بہترین انداز میں متعارف کروایا ہے جبکہ مملکت کی ’برینڈ سٹریٹجی‘ میں سب سے اہم کردار فیشن کا بھی ہے۔
سعودی عرب کے روایتی کپڑے سعودی اور تارکین وطن بڑے فخر کے ساتھ پہنتے ہیں۔ حال ہی میں ہونے والے سعودی کپ میں بات سامنے آئی کہ پرانے ثقافتی انداز کو عہد حاضر میں نئی زندگی مل سکتی ہے۔
جبکہ یہ فیشن کی خاص جھلک بھی دکھا سکتا ہے یہ دونوں مل کر کپڑوں، کشیدہ کاری، رنگوں اور ڈیزائنز کے ساتھ مستقبل میں منتقل ہو سکتے ہیں۔
سعودی کپ میں روایتی ملبوسات رکھے گئے جس کا اہتمام منسٹری آف فیشن کمیشن نے کیا تھا اور ایسے ملبوسات کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی جن میں روایتی اور ثقافتی جھلک بھی تھی اور دور حاضر کا انداز بھی۔
اگرچہ فیشن کی عالمی مارکیٹس پر مغربی ملبوسات کا غلبہ ہے تاہم سعودی عرب اپنے روایتی ملبوسات سے جڑا ہوا ہے۔
سعودی ڈیزائنر لگاتار ایسے نئے ملبوسات متعارف کرواتے رہتے ہیں جن میں پرانے اور نئے انداز کا امتزاج ہوتا ہے۔
محمد خوجا ایک فیشن ڈیزائنر ہیں جو اپنے کام میں روایتی انداز کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
اس حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں نے اپنا فیشن ڈیزائننگ کے کام کا آغاز کیا تب سے ہی روایتی انداز مجھے بھاتا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ میں اپنے ڈیزائنز اور کام کے دیگر امور میں روایت اور ثقافت کو اہمیت دیتا ہوں‘
خوجا کا ماننا ہے کہ اس کی بدولت ان کے ڈیزائن مقامی اور عالمی سطح پر خریداروں کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔
انہوں نے عرب نیوز کو یہ بھی بتایا کہ ان کے اس انداز کی وجہ سے ہم عصر مارکیٹ میں ایک خصوصی پہنچان بھی ملی ہے۔
ہیریٹیج بوتیک کی مالک، سعودی ڈیزائنز عمائمہ کنداسہ کا کہنا ہے کہ سعودی کپ جیسے مواقع سے سعودیوں کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے علاقائی کلچر کو پیش کر سکیں جبکہ ساتھ ہی مملکت کا خوبیوں سے مالامال ورثہ اور متنوع ثقافت بھی دنیا کے سامنے آتی ہے۔
کنداسہ نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’میں 10 سال روایتی ڈیزائنز کو جدت کے ساتھ اختیار کرنے کا کام کر رہی ہیں۔ اب نئے آنے والے ڈیزائنر بھی ایسا کر رہے ہیں کیونکہ ان کو ہمارے ورثے سے محبت ہو گئی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر نئی نسل آج روایتی کپڑے پہنتی ہے تو ان کو وہ وزنی محسوس ہوں گے خصوصاً ایسے ملبوسات جن پر زیبائش یا پھر پتھروں کا کام کیا گیا ہو۔‘
’ان چیزوں میں جدت پیدا کر کے نوجوان نسل کی پسند کے مطابق اور دور حاضر سے مطابقت دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری ثقافتی روایت فیشن کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔‘
کنداسہ مملک کے روایتی ملبوسات کے حوالے سے خصوصی مہارت رکھتی ہیں تاہم وہ جدید ملبوسات اور ڈیزائنز سے بھی پوری طرح آگاہ ہیں۔
بقول ان کے ’ہر خطہ اپنے ثقافتی ورثے کو اپنے ڈیزائنز، جغرافیائی شکل، وہاں پھلے رنگوں، کشیدہ کاری اور دیگر چیزوں کی بدولت آشکار کرتا ہے، یہ سب کچھ ایک شاہکار پینٹنگ کی طرح ہے‘
دنیا بھر میں خاص مواقع پر سعودی مشن کے تحت یونیورسٹیوں کے سعودی طلبہ اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے روایتی ملبوسات پہنتے ہیں۔
ڈیزائنر شہزادی نوراہ الفیصل نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’سعودی کپ اپنی ثقافت، خوبصورتی، تنوع دکھانے کے لیے ایک زبردست موقع ہے‘
انہوں نے اس پراجیکٹ کے لیے کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کیا۔
شہزادی نوراہ مزید کہتی ہیں کہ سعودی فیشنز کو اجاگر کرنے کا آئیڈیا بنیادی طور پر ان کا نہیں بلکہ یہ ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے آیا تھا‘
شہزادی کو امید ہے کہ روایتی، ثقافتی خوبصورتی کو بہتر انداز میں پیش کیا گیا ہے، اس سے لوگ اپنے کلچر کی طرف راغب ہوں گے۔