Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسترد ووٹوں کا معاملہ: پریزائیڈنگ آفیسر کی رولنگ چیلنج ہو سکتی ہے؟

پریزائیڈنگ آفیسر سید مظفر حسین شاہ نے کہا تھا کہ ’اپوزیشن کو اگر میری رولنگ پر اعتراض ہے تو وہ ٹریبیونل میں جا سکتے ہیں۔‘ فوٹو: اردو نیوز
پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ کا تنازعات سے بھرپور انتخاب ایک نئے تنازعے کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ اس نئے تنازعے نے کئی ایک قانونی بحثوں کو بھی جنم دیا ہے۔
جہاں بیلٹ پیپر پر مہر ثبت کرنے کی جگہ کے حوالے سے خاصی بحث ہو رہی ہے وہیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آیا پریزائیڈنگ آفیسر کی رولنگ چیلنج بھی ہو سکتی ہے یا نہیں؟ کیا ماضی میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟
سینیٹ حکام کے مطابق چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں عموماً اتنی بڑی تعداد میں ووٹ مسترد نہیں ہوتے تاہم ماضی میں اس کی ایک مثال موجود ہے۔ سال 1997 میں وسیم سجاد 18 ووٹ مسترد قرار دیے جانے کے باوجود 49 ووٹ لے کر جیت گئے تھے۔ ان کے مد مقابل پیپلزپارٹی کے بیرسٹر مسعود کوثر کو 13 ووٹ ملے تھے۔
اسی انتخاب کے دوران ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے ہمایوں مری ڈپٹی چیئرمین کے امید وار تھے۔ ان کے بھی 18 ووٹ خراب ہو گئے تھے لیکن وسیم سجاد نے یہ 18 ووٹ درست قرار دے دیے تھے۔ وسیم سجاد نے بحیثیت چیئرمین رولنگ دی تھی کہ ووٹرز کی نیت کا پتہ چل رہا تھا کہ وہ کسے ووٹ دینا چاہتے تھے۔
ووٹوں کے مسترد کیے جانے کے معاملے کو چیلنج کیا جا سکتا ہے یا نہیں اس حوالے سے بحث نے جنم اس وقت لیا جب پریزائیڈنگ آفیسر سید مظفر حسین شاہ نے کہا کہ ’اپوزیشن کو اگر میری رولنگ پر اعتراض ہے تو وہ ٹریبیونل میں جا سکتے ہیں۔‘
اس حوالے سے حکومت کی جانب سے سب سے پہلے وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے اعتراض اٹھایا اور کہا کہ آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت ایوان میں ہونے والی کسی کارروائی کو کسی بھی عدالت میں چلینج نہیں کیا جا سکتا۔‘
اپوزیشن کے سینیٹر اور قانونی ماہر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’پریزائیڈنگ آفیسر کو کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے لیے کوئی ٹربیونل نہیں ہوتا۔ اس کے لیے میرے خیال کے مطابق ایک رٹ پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر ہوگی۔ اپوزیشن کی جانب سے اس پر مشاورت جاری ہے۔ اب یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ہم ہائی کورٹ جاتے ہیں یا سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔‘  

وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور  نے کہا تھا آرٹیکل 69 کے تحت ایوان میں ہونے والی کسی کارروائی کو کسی بھی عدالت میں چلینج نہیں کیا جا سکتا۔‘ فائل فوٹو: اے پی پی

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے اردو نیوز سے  گفتگو میں کہا کہ ’عموماً بیلٹ پیپر کو مسترد کرنے کے لیے بڑی سوچ بچار کرنا پڑتی ہے۔ اگر نام پر مہر لگا دی گئی ہے تو مسترد ہونا بنتا نہیں ہے اگر دائیں بائیں نیچے اوپر لگ جاتی تو ووٹ مسترد ہوجاتا۔ پریزائیڈنگ آفیسر نے خود ہی اپوزیشن کو قانونی جنگ کا راستہ دکھا دیا ہے۔ ابھی پریزائڈنگ آفیسر کی رولنگ سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج ہوسکتی ہے۔‘
سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ ’اس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ فلور پر جو کچھ بھی ہوا اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ ان لوگوں نے بیلٹ پیپر مخصوص جگہ سے ہٹ کر ایک خاص پیٹرن میں ووٹ خراب کیے۔ انہوں نے دراصل کسی کو یہ بتایا ہے کہ ان کے کے کہنے پر وہ ایسا کر رہے ہیں۔ اس سے تو ووٹ کی خفیہ حیثیت بھی ختم ہوگئی اور جس ووٹ کی خفیہ حیثیت ہی ختم ہو جائے اسے مسترد ہی سمجھا جانا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دوسری بات یہ ہے سینیٹ یا کسی بھی ایوان کی کارروائی کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ جو رولز آف بزنس ہیں آئین کا آرٹیکل 69 ہے اس کے اندر بہت واضح طور پر دیے ہوئے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کارروائی یہ دونوں کسی کورٹ میں چیلنج نہیں کیے جاسکتے۔‘

طاہر حنفی نے کہا کہ ’پانامہ کیس میں نواز شریف کی قوی اسمبلی میں تقریر کو بنیاد بنا کر۔۔۔معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جایا جا سکتا ہے۔‘ فائل فوٹو: اے ایف پی

ماہر قانون سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’آرٹیکل 69 ٹو کو پڑھیں تو وہ کہتا ہے کہ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمانی کارروائی کو تحفظ حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں مظفر حسین شاہ نے پریذائیڈنگ آفیسر کے طور پر جو خدمات سرانجام دیں کیا وہ ایک آئین کے تحت تھیں؟ پاکستان کے آئین میں سینیٹ چیئرمین کے الیکشن کے لیے پریذائیڈنگ آفیسر کا کوئی تصور موجود نہیں ہے، یہ ایک طرح سے ایڈ ہاک فیصلہ ہوتا ہے۔ پریزائیڈنگ آفیسر کو کسی طرح سے آئین کے تحت کوئی طاقت نہیں دی جاتی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کوئی بھی شخص جو قانونی نوعیت کی رولنگ دیتا ہے وہ حرفِ آخر نہیں ہوتا۔‘
پارلیمانی امور کے ماہر طاہر حنفی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’آرٹیکل 69 آئین کا حصہ ہے اور اس وقت تنازعہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ آیا ووٹوں کو مسترد کرنے کے حوالے سے پریزائیڈنگ آفیسر کی رولنگ آئین کے تحت تھی یا نہیں؟ سپریم کورٹ کا کام آئین کی تشریح کرنا ہے اس لیے معاملے کو چیلنج تو کیا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پانامہ کیس میں نواز شریف کی قومی اسمبلی کے فلور پر کی گئی تقریر کو بنیاد بنا کر عدالت نے فیصلے میں جو کچھ لکھا تھا اس سے بھی یہ اخذ تو کیا جا سکتا ہے کہ معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جایا جا سکتا ہے۔‘

شیئر: