براڈشیٹ انکوائری رپورٹ: چار اعلیٰ عہدیدار ادائیگی کے ذمہ دار قرار
براڈشیٹ انکوائری رپورٹ: چار اعلیٰ عہدیدار ادائیگی کے ذمہ دار قرار
پیر 22 مارچ 2021 18:46
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
شیخ عظمت سعید نے بتایا کمیشن ختم ہو چکا ہے رپورٹ کے مندرجات حکومت خود ہی سامنے لائے گی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ شیخ عظمت سعید پر مشتمل ایک رکنی کمیشن نے ’جعلی‘ براڈ شیٹ کمپنی کو رقم دیے جانے کے معاملے کی انکوائری مکمل کر کے رپورٹ حکومت کو بھجوا دی ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے شیخ عظمت سعید نے بتایا کہ ’کمیشن اب ختم ہو چکا ہے میں رپورٹ حکومت کو دے دی ہے اس کے مندرجات حکومت خود ہی سامنے لائے گی۔‘
اس رپورٹ کو پڑھنے والے ایک اعلیٰ حکومتی اہکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز سے اس رپورٹ کے کچھ مندرجات شیئر کیے۔
انہوں نے بتایا کہ رپورٹ پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے جن میں باسٹھ صفحات پر انکوائری جب کہ باقی صفحات رپورٹ سے متعلق مواد پر مشتمل ہیں۔
اعلی افسر کے مطابق ’کمیشن نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کے برطانیہ میں سابق ہائی کمشنرعبدالباسط ، سابق حکومتی وکیل احمربلال صوفی ، وزارت قانون کے سابق جوائنٹ سیکرٹری غلام رسول اور نیب کے ڈیسک آفیسر حسن ثاقب کو پندرہ لاکھ ڈالر حکومتی خزانے سے نکلوا کر غلط ہاتھوں میں دینے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کمیشن نے کل 26 افراد کے بیانات بھی قلم بند کیے ہیں جن میں ان افراد کے نام بھی شامل ہیں جنہوں نے کمیشن کے روبرو یہ مانا ہے کہ ان سے غلطی ہوئی۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس کو ناقابل قبول اور فاش غلطی قرار دیا ہے۔‘
رپورٹ کے ایک حصے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پندرہ لاکھ ڈالر کی رقم دے کر جو سیٹلمنٹ کی گئی اس کے بعد اس سیٹلمنٹ کا ریکارڈ غائب کر دیا گیا۔
اعلی افسر کے مطابق ’رپورٹ میں سیکرٹریز جن میں وفاقی سیکرٹری قانون، وفاقی سیکرٹری فنانس اور اٹاری جنرل آف پاکستان کے بیان بھی لف کیے گیے ہیں جنہوں نے یہ بتایا ہے کہ اس سیٹلمنٹ سے متعلق ریکارڈ چوری کیا گیا ہے۔ اسی طرح لندن ہائی کمیشن میں بھی فائل کی ایک کاپی رکھی گئی تھی وہ بھی چوری ہو گئی ہے اور لندن میں پاکستان کے ہائی کمیشن نے ویڈیو بیان میں کمیشن کو اس صورت حال سے آگاہ کیا ہے۔ صرف ایک کاپی نیب کے دفتر میں موجود تھی جس سے ساری صورت حال سامنے آئی۔ کمیشن نے واضع لکھا ہے کہ حکومت اس چوری کے سامنے آنے کے بعد اپنی مرضی سے کاروائی کر سکتی ہے۔‘
براڈ شیٹ کمیشن کا بیک گراونڈ:
پاکستان کی حکومت کو اس وقت سبکی کا سامنا کرنا پڑا جب براڈ شیٹ ایل ایل سی نامی امریکی کمپنی نے لندن ہائی کورٹ میں نیب کے خلاف ہرجانے کا مقدمہ جیت لیا۔
براڈ شیٹ کے معاملے پر لندن ہائی کورٹ کے فیصلے میں یہ بات سامنے آئی کہ براڈ شیٹ کمپنی سمجھ کر نیب نے پندرہ لاکھ ڈالرز اسی نام کی ملتی جلتی کمپنی کو ادا کر دیے تھے اور عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ یہ ادائیگی ہو چکی ہے۔
تاہم لندن ہائی کورٹ نے حکومت پاکستان کے وکیل کی یہ بات رد کرتے ہوئے اصل براڈ شیٹ کو سود اور اخراجات سمیت 33 لاکھ ڈالر ادا کرنے کا حکم دے دیا۔ ’جعلی‘ براڈ شیٹ کو ادا کئے جانے والے پندرہ لاکھ ڈالر الگ ہیں۔ نیب نے ایک جعلی کمپنی کو یہ رقم کیوں دی اور یہ پندرہ لاکھ ڈالر کی ادائیگی کیسے ہوئی اس حوالے سے حکومت پاکستان نے جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید کو اس معاملے کی انکوائری کرکے رپورٹ 45 دن میں جمع کروانے کی ہدایت کی تھی۔ کمیشن نے اپنی حتمی روپورٹ میں چار افراد کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔
خیال رہے کہ سال دوہزار میں سابق فوجی صدر پرویزمشرف کے دور میں نیب نے براڈ شیٹ نامی کمپنی سے شریف فیملی سمیت دیگر سیاستدانوں اور کاروباری افراد کے بیرون ملک اثاثہ جات کی چھان بین کے لیے معاہدہ کیا تھا۔
سال دوہزار تین میں یہ معاہدہ اس وجہ سے ختم کر دیا گیا کہ کمپنی ’مطلوبہ نتائج‘ فراہم نہیں کر سکی۔ جس کے بعد اس کمپنی نے ہرجانے کا دعوی دائر کر دیا تھا۔
سال 2007 میں نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ عدالت کے باہر سیٹلمنٹ کرنے کا فیصلہ کیا تو اس غرض سے احمربلال صوفی نے لندن جا کر کمپنی کے مالک کیوموسووی سے ملاقت کی اور 15 لاکھ ڈالر دینے کی پیش کش کی۔ جس کے بعد یہی 15لاکھ ڈالر 2008 میں جیری جیمز نامی شخص کو ادا کر دیے جو ایک اور براڈشیٹ نامی کمپنی کے مالک تھے۔ اور ڈیل برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اندر ہوئی تھی اور عبدالباسط اس وقت پاکستانی ہائی کمشنر تھے۔ بعد ازاں وہ بھارت میں بھی پاکستان کے ہائی کمشنر رہے۔