Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ندیم بابر سے استعفیٰ طلب، پٹرولیم بحران کیا تھا اور کیوں پیدا ہوا؟

لاک ڈاؤن کے دوران میں اچانک بحران نے سر اٹھایا اور پٹرول نایاب ہو گیا (فوٹو: اے ایف پی)
پچھلے سال جون میں سامنے آنے والے پٹرولیم بحران کے حوالے سے ایف آئی اے کی رپورٹ کے بعد وزیراعظم نے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ڈویژن ندیم بابر کو مستعفی ہونے کی ہدایت کی ہے۔
جس کے بعد یہ سوال سامنے آ رہا ہے کہ پٹرولیم بحران تھا کیا اور کب پیدا ہوا تھا؟
اردو نیوز کے پاس موجود معلومات کے مطابق 2020 کے وسط میں لاک ڈاؤن کے باعث دنیا بھر میں پٹرول کی کھپت میں کمی کے باعث قیمتوں میں کمی ہوئی تو اس کے اثرات ہوری دنیا میں نمودار ہوئے۔
انہی دنوں وزیراعظم نے ٹویٹ کرکے دعویٰ کیا کہ جنوبی ایشیا میں پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات سب سے سستی ہیں۔
اس کے اگلے ہی دن ملک میں پٹرول کے بحران نے سر اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں پھیل گیا۔
پٹرول سٹیشنز پر تیل ختم اور سپلائی نہ ہونے کے برابر تھی۔ جہاں پر پٹرول موجود تھا وہاں بلیک میں فروخت ہونے لگا۔
جس پر وزیراعظم اور کابینہ انکوائری کی ہدایات جاری  کیں۔ جس نے ابتدائی رپورٹ میں اوگرا اور حکومتی اداروں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ وزارت پٹرولیم ڈویژن کے ذیلی اداروں میں سنجیدگی کے فقدان کے باعث یہ بحران سامنے آیا۔ جبکہ ٹیسٹنگ، سپلائی، سٹوریج، ٹرانسپورٹیشن اور دیگر امور کے لیے رابطوں کا طریقہ کار موجود ہی نہیں۔

کچھ سٹیشنز پر پٹرول موجود تھا وہاں بلیک میں فروخت ہوتا رہا (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب وزارت پٹرولیم اور اوگرا کے درمیان 25 مارچ سے تین جون تک ہونے والی خط و کتابت کے مطابق اس صورت حال کے تانے بانے لاک ڈاؤن کے آغاز یعنی بحران سے دو ماہ پہلے سے ملتے تھے۔
لاک ڈاؤن کے باعث پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں کمی واقع ہوئی تو 25 مارچ کو پٹرولیم ڈویژن کی جانب سے تیل کمپنیوں کو تیل درآمد نہ کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے۔ آئل ریفائنریز کوبھی تیل کی درآمد کرنے سے روک دیا گیا۔
لیکن دس دن بعد ہی وزارت پٹرولیم کی جانب سے اوگرا کو ایک اور خط لکھا گیا جس میں تیل کمپنیوں کے پاس سٹاک نہ ہونے کا اعتراف کیا گیا۔ خط کے مطابق پی ایس او کے علاوہ کسی اور کمپنی کے پاس تیل کا سٹاک موجود نہیں تھا۔
اپریل 2020 میں گڈز ٹرانسپورٹ چلنے اور گندم کی کٹائی کے باعث پٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں اضافہ ہوا تو 24 اپریل کوحکومت کی جانب سے تیل کی درآمد پر پابندی ہٹا لی گئی۔

ابتدائی رپورٹ میں بحران کا ذمہ دار اوگرا اور حکومتی اداروں کو ٹھہرایا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

یکم مئی 2020 کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان ہوا تو دو مئی کو پی ایس او نے ملک میں تیل بحران پیدا ہونے کے خطرے سے آگاہ کردیا۔
پی ایس او نے اوگرا کو لکھا تھا کہ ’تیل کمپنیوں کے پاس ذخیرہ بتدریج کم ہورہا ہے اور کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا۔ تیل کمپنیوں کے تیل نہ خریدنے کے باعث ریفائنریوں کی پیداوار متاثر اور آپریشنز بند ہو رہے ہیں۔ شیل کے پاس 6,ٹوٹل اوراٹک پڑولیم 7 گو کے پاس 4 اور بائیکو کے پاس 9دن کا ذخیرہ موجود ہے۔‘
اس دوران جب مسلسل دوسرے مہینے بھی حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا گیا تو یکم جون کو ڈی جی آئل نے یکم جولائی سے تیل کی قیمت میں ممکنہ اضافے کی پیش گوئی کرتے ہوئے انتباہ کیا کہ کمپنیاں پٹرولیم مصںوعات کی قیمت میں اضافے کا فائدہ حاصل کرنے کے لیے تیل فراہمی کم کرسکتی ہیں۔ اس اقدام سے ملک بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قلت ہوسکتی ہے۔
دو جون کو اوگرا نے میڈیا خبروں کی بنیاد پر کمپنیوں کو تیل فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی اور سیکریٹری پٹرولیم کو خط لکھ کر مڈ اور اپ کنٹری میں تیل کی قلت کے بارے میں آگاہ کیا۔

پٹرولیم مصنوعات کا بحران سامنے آنے پر وزیراعظم عمران خان نے تحقیقات کا حکم دیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

صورت حال سے نمٹنے کے لیے تین جون کو اوگرا نے چاروں چیف سیکرٹریز کو تیل فراہمی کے حوالے سے خط لکھا کہ ڈی سی اوز تیل فراہم نہ کرنے والے پٹرول پمپس کی تفصیلات اوگرا کو فراہم کریں۔
تین جون کو سرکاری دستاویز کے مطابق ملک میں پٹرول کا سات دن اور ڈیزل کا پانچ دن کا ذخیرہ موجود تھا لیکن پٹرول سٹیشنوں پر عوام کی بھیڑ کو دیکھتے ہوئے آٹھ جون کو
 وزیر توانائی نے ڈی جی آئل کی سربراہی میں تیل کی ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دی۔
اس وقت اوگرا کا موقف یہ تھا کہ جب حکومت نے تیل کی درآمد پر سے پابندی ختم کی اور سب کمپنیوں نے آرڈرز دیے۔ اس دوران پاکستان نے ملک میں نئی قیمتوں کا اعلان کر دیا تاہم بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں اضافہ ہوچکا تھا۔

وزیر اعظم نے اپنے معاون خصوصی ندیم بابر سے استعفیٰ طلب کر لیا؟

جمعے کو اسلام آباد میں وفاقی وزرا شریں مزاری اور شفقت محمود کے ہمراہ  پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے تحقیقات کرنے کی ہدایت کی تھی۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ ’دیکھنا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی ذخیرہ اندوزی کیسے کی گئی اور کس نے کی؟ جہاں کمزوریاں ہوئیں، ثبوت کے ساتھ کورٹ کے اندرکیسز دائر جائیں گے۔‘

وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے 90 روز کے اندر اپنی فارنزک رپورٹ مکمل کرے گی (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ڈویژن ندیم بابر کو عہدے سے استعفیٰ دینے کی ہدایت کرتے ہوئے وزارت پٹرولیم کو تمام انتظامی فیصلے کر کے رپورٹ کرنے کا کہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’قانون سازی کے اندر ابہام پیدا ہوا کہ اوگرا اور  پٹرولیم ڈویژن کی کیا ذمہ داری ہے پٹرولیم ڈویژن اوگرا پر ذمہ داری ڈالتا تھا، ہمیں اس ابہام کو ختم کرنا ہے۔‘
اسد عمر نے بتایا کہ پٹرولیم بحران کی تحقیقات کی ذمہ داری ایف آئی اے کو سونپی گئی تھی اور اس کی رپورٹ کابینہ میں  پیش کی گئی۔
جس پر کابینہ کی کمیٹی بنائی گئی جس میں شفقت محمود، شیریں مزاری، اعظم سواتی اور وہ (اسد عمر) شامل تھے۔ کمیٹی نے سفارشات وزیراعظم کو پیش کر دی تھیں۔
اسد عمر نے کہا کہ تین مختلف حصوں میں سفارشات پیش کی گئی ہیں جن کا پہلا حصہ ایسے ایکشنز کے بارے میں ہے، جو مجرمانہ تھے اور ان  کے خلاف کریمینل کیسز بن سکیں، اس کے لیے ثبوت پیش کیے جائیں گے۔
ایف آئی اے 90 روز کے اندر اپنی فارنزک رپورٹ مکمل کرے گی جس کی بنیاد پر پراسیکیوشن کا عمل شروع ہو گا۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ جو مافیا عوام کا پیسہ لوٹ رہا ہے وزیراعظم اس کو بالکل نہیں جانے دیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ وزیراعظم کا مافیاز کو پیغام  ہے کہ ’ان کا وقت ختم ہو گیا ہے۔‘
اسد عمر کے بقول جن شعبوں کو چیک کرنے کا کہا گیا ہے کہ کمپنیوں نے کس حد تک انوینٹری رکھی۔
یہ بھی چیک کیا جائے گا کہ جو سیلز رپورٹ ہوئیں، وہ درست تھیں یا پھر اصل اور کاغذ پر دکھائی جانے والی سیل میں فرق تھا اور یہ فرق کتنا تھا اور اس کے لیے کس نے مجرمانہ کردار ادا کیا؟
 وفاقی وزیر نے یہ بھی کہا کہ کیا پٹرولیم کی ذخیرہ اندوزی کی گئی تھی اور ایسا ہوا تھا تو کس نے کیا تھا؟

شیئر: