پچھلے سال جون میں سامنے آنے والے پٹرولیم بحران کے حوالے سے ایف آئی اے کی رپورٹ کے بعد وزیراعظم نے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ڈویژن ندیم بابر کو مستعفی ہونے کی ہدایت کی ہے۔
جس کے بعد یہ سوال سامنے آ رہا ہے کہ پٹرولیم بحران تھا کیا اور کب پیدا ہوا تھا؟
اردو نیوز کے پاس موجود معلومات کے مطابق 2020 کے وسط میں لاک ڈاؤن کے باعث دنیا بھر میں پٹرول کی کھپت میں کمی کے باعث قیمتوں میں کمی ہوئی تو اس کے اثرات ہوری دنیا میں نمودار ہوئے۔
مزید پڑھیں
-
’گل ودھ گئی اے، مختارے نُوں وی کورونا‘Node ID: 484706
-
مشیر اور معاونین کتنے اثاثوں کے مالک؟Node ID: 493206
-
قطر کے ساتھ ایل این جی معاہدہ ’31 فیصد سستا‘Node ID: 544556
انہی دنوں وزیراعظم نے ٹویٹ کرکے دعویٰ کیا کہ جنوبی ایشیا میں پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات سب سے سستی ہیں۔
اس کے اگلے ہی دن ملک میں پٹرول کے بحران نے سر اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں پھیل گیا۔
پٹرول سٹیشنز پر تیل ختم اور سپلائی نہ ہونے کے برابر تھی۔ جہاں پر پٹرول موجود تھا وہاں بلیک میں فروخت ہونے لگا۔
جس پر وزیراعظم اور کابینہ انکوائری کی ہدایات جاری کیں۔ جس نے ابتدائی رپورٹ میں اوگرا اور حکومتی اداروں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ وزارت پٹرولیم ڈویژن کے ذیلی اداروں میں سنجیدگی کے فقدان کے باعث یہ بحران سامنے آیا۔ جبکہ ٹیسٹنگ، سپلائی، سٹوریج، ٹرانسپورٹیشن اور دیگر امور کے لیے رابطوں کا طریقہ کار موجود ہی نہیں۔
![](/sites/default/files/pictures/March/42961/2021/petrolafp.jpg)
دوسری جانب وزارت پٹرولیم اور اوگرا کے درمیان 25 مارچ سے تین جون تک ہونے والی خط و کتابت کے مطابق اس صورت حال کے تانے بانے لاک ڈاؤن کے آغاز یعنی بحران سے دو ماہ پہلے سے ملتے تھے۔
لاک ڈاؤن کے باعث پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں کمی واقع ہوئی تو 25 مارچ کو پٹرولیم ڈویژن کی جانب سے تیل کمپنیوں کو تیل درآمد نہ کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے۔ آئل ریفائنریز کوبھی تیل کی درآمد کرنے سے روک دیا گیا۔
لیکن دس دن بعد ہی وزارت پٹرولیم کی جانب سے اوگرا کو ایک اور خط لکھا گیا جس میں تیل کمپنیوں کے پاس سٹاک نہ ہونے کا اعتراف کیا گیا۔ خط کے مطابق پی ایس او کے علاوہ کسی اور کمپنی کے پاس تیل کا سٹاک موجود نہیں تھا۔
اپریل 2020 میں گڈز ٹرانسپورٹ چلنے اور گندم کی کٹائی کے باعث پٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں اضافہ ہوا تو 24 اپریل کوحکومت کی جانب سے تیل کی درآمد پر پابندی ہٹا لی گئی۔
![](/sites/default/files/pictures/March/42961/2021/petrol_afp3_0.jpg)
یکم مئی 2020 کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان ہوا تو دو مئی کو پی ایس او نے ملک میں تیل بحران پیدا ہونے کے خطرے سے آگاہ کردیا۔
پی ایس او نے اوگرا کو لکھا تھا کہ ’تیل کمپنیوں کے پاس ذخیرہ بتدریج کم ہورہا ہے اور کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا۔ تیل کمپنیوں کے تیل نہ خریدنے کے باعث ریفائنریوں کی پیداوار متاثر اور آپریشنز بند ہو رہے ہیں۔ شیل کے پاس 6,ٹوٹل اوراٹک پڑولیم 7 گو کے پاس 4 اور بائیکو کے پاس 9دن کا ذخیرہ موجود ہے۔‘
اس دوران جب مسلسل دوسرے مہینے بھی حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا گیا تو یکم جون کو ڈی جی آئل نے یکم جولائی سے تیل کی قیمت میں ممکنہ اضافے کی پیش گوئی کرتے ہوئے انتباہ کیا کہ کمپنیاں پٹرولیم مصںوعات کی قیمت میں اضافے کا فائدہ حاصل کرنے کے لیے تیل فراہمی کم کرسکتی ہیں۔ اس اقدام سے ملک بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قلت ہوسکتی ہے۔
دو جون کو اوگرا نے میڈیا خبروں کی بنیاد پر کمپنیوں کو تیل فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی اور سیکریٹری پٹرولیم کو خط لکھ کر مڈ اور اپ کنٹری میں تیل کی قلت کے بارے میں آگاہ کیا۔
![](/sites/default/files/pictures/March/42961/2021/imran_afp.webp)
صورت حال سے نمٹنے کے لیے تین جون کو اوگرا نے چاروں چیف سیکرٹریز کو تیل فراہمی کے حوالے سے خط لکھا کہ ڈی سی اوز تیل فراہم نہ کرنے والے پٹرول پمپس کی تفصیلات اوگرا کو فراہم کریں۔
تین جون کو سرکاری دستاویز کے مطابق ملک میں پٹرول کا سات دن اور ڈیزل کا پانچ دن کا ذخیرہ موجود تھا لیکن پٹرول سٹیشنوں پر عوام کی بھیڑ کو دیکھتے ہوئے آٹھ جون کو
وزیر توانائی نے ڈی جی آئل کی سربراہی میں تیل کی ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دی۔
اس وقت اوگرا کا موقف یہ تھا کہ جب حکومت نے تیل کی درآمد پر سے پابندی ختم کی اور سب کمپنیوں نے آرڈرز دیے۔ اس دوران پاکستان نے ملک میں نئی قیمتوں کا اعلان کر دیا تاہم بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں اضافہ ہوچکا تھا۔
وزیر اعظم نے اپنے معاون خصوصی ندیم بابر سے استعفیٰ طلب کر لیا؟
جمعے کو اسلام آباد میں وفاقی وزرا شریں مزاری اور شفقت محمود کے ہمراہ پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے تحقیقات کرنے کی ہدایت کی تھی۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ ’دیکھنا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی ذخیرہ اندوزی کیسے کی گئی اور کس نے کی؟ جہاں کمزوریاں ہوئیں، ثبوت کے ساتھ کورٹ کے اندرکیسز دائر جائیں گے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/March/42961/2021/asad_umar_afp.jpg)